دو سال کی حکومت کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو گزشتہ جمعہ کی سہہ پہر لاہور میں یہ کہنے کا حوصلہ ہوا ہے کہ کشتیاں جلا دی ہیں اور پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ یہ عزم انہوںنے معاشی ترقی کی اطمینان بخش صورت حال کے پیش نظر کیا ہے۔
عمران خان نے حکومت سنبھالی تو پاکستان قرضوں کے جنجال میں جکڑا ہوا تھا۔ اور معیشت اس قدر بدحال جیسے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پرہو۔ صرف نواز شریف نے اپنے دور میں بیرونی قرضوں کو پچپن ارب سے بانوے ارب تک پہنچا دیا، یہ سارے قرضے غیر پیداواری منصوبوں کی بھینٹ چڑھا دیے گئے، میٹرو کے تین الف لیلوی منصوبے اور ایک اورنج ٹرین کا جناتی منصوبہ جن کو رواں رکھنے کے لیے حکومت اربوں کی سبسڈی دے رہی تھی ، بجلی کے ایسے پراجیکٹ لگے جن کی فی یونٹ لاگت عوام کی استطاعت سے باہر تھی ، دیکھتے ہی دیکھتے پانچ چھ روپے یونٹ کا بل بیس بائیس روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ، انہی قرضوں سے ہائیڈل پاور کے سستے منصوبے بھی شروع کیے جاسکتے تھے، جن سے بلوں کی مد میں عوام کو ریلیف ملتی اور دوسری طرف وہ معیشت کی بہتری کا باعث بنتے، اسی حکومت نے ہر پراجیکٹ سرکاری مشینری کے ہاتھوں پروان چڑھانے کی بجائے نئی کمپنیاں بنا لیں جو منی لانڈرنگ کا باعث بنیں، لاہور میں صاف پانی کے ایک منصوبے کو ہی لے لیں تو اس میں کسی شہری کو ایک قطرہ صاف پانی کا نہیں ملا مگر پراجیکٹ کا سارا پیسہ کھا پی کر ہضم کر لیا گیا۔
عمران خان نے اپنے انتخابی جلسوں میں ا س توقع کااظہار کیا تھا کہ ملک کا وو سو ارب ڈالر سرمایہ چوری کر کے باہر کے بنکوں میں پڑا ہے،۔ یہ پیسہ واپس آئے گا تو ملک کا کل ایک سو ارب ڈالر کا قرضہ پورے کا پورا اتار دیاجائے گاا ور سو ارب ڈالر عوامی فلاح وبہبودپر خرچ ہوںگے۔ ملک کسی بیرونی طاقت یا مالیاتی ادارے کے رحم و کرم پر نہیںہو گا ۔ مگر دوسو ارب ڈالر چوری کرنے والے بھی کمال کے ڈھیٹ تھے۔ وہ ایک پائی بھی واپس لانے کو تیار نہ تھے۔ انہوںنے مقدمے بھگتے ۔ جیلیںکاٹیں مگر دیا دلایا کچھ نہیں ۔ ادھر ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا۔ حکومت نے ایف بی آر کو ٹاسک تو دیا کہ وہ پانچ ہزار ارب کے ٹیکس اکٹھے کرے مگر تاجر اور صنعت کار ٹیکس دینے سے انکاری نکلے ۔ تاجروں کی دھمکیاں، تالہ بندی اور ملازمین کی چھانٹیاں ، یہ تھے ٹیکس چوروں کے ہتھکنڈے۔ حکومت نے بہر حال ملک کو چلانا تھا۔ معیشت کی گاڑی کو پٹری پر لانا تھا۔ اس کے پاس کوئی اور چارہ کار نہ تھا کہ وہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی ا داروں سے رجوع کرے۔ اس کی کوششیں رنگ لائیں سعودی عرب نے تین ارب دالر اسٹیٹ بنک آف پاکستان میںمنتقل کر دیئے اور ساڑھے تین ارب ڈالر کا تیل مئوخر ادائیگی کی شرط پر دینا شروع کر دیا۔ قطر نے دو ارب ڈالر دیئے ، عرب امارات نے دو ارب ڈالر دئے۔ چین نے بھی معقول حصہ ڈالاا ور آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر بھی مل گئے۔ مگر یہ قرضے نواز شریف اورزرداری کے دور میںلئے گئے قرضوں کی قسطوں کی ا دائیگی کی نذر ہو نے لگے۔
عرب دوستوں اور آئی ایم ایف کے پیکیج سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہرنکل آیا۔ معیشت کو آئی سی یو کے وینٹی لیٹر سے نجات مل گئی ، گو حکومت کا پہلا سال بڑا مشکل ثابت ہوا لیکن دوسرے سال میں معیشت ٹیک آف کے قابل ہوگئی، حکومت نے بڑی تیزی سے اپنے انتخابی وعدوں کی طرف توجہ دی، سستے گھروں کی تعمیر کے لیے ملک کی سب سے زیادہ دیانت دار تنظیم اخوت سے معاہدہ کیا۔ یہ تنظیم ریاست مدینہ کے مواخات کے ماڈل پر کام کرتی رہی ہے اور اس نے لاکھوں لوگوںکو بلا سود قرضے دیے یہ ریاست مدینہ کا مواخات کا ماڈل تھا جس میں انصار مدینہ نے مہاجروں کی بڑھ چڑھ کر مدد کی تھی اور یہ سب اللہ کی رضا کے لیے تھا، اخوت اس وقت پاکستان میں اتنا پیسہ تقسیم کر چکی ہے جو پاکستان کے تمام بڑے سیٹھوں کی دولت سے بڑھ کر ہے بلکہ قومی بجٹ سے بھی اس کا مالیاتی دائرہ زیادہ وسیع ہے ، سستے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ اخوت کو ملنے سے لوگوں کو یہ آس پیدا ہوئی کہ اب انہیں کسی سفارش ، رشوت کے دھندے اور دفتروں کے چکر کے بغیر قرضہ ملے گا اور وہ اپنے خوابوں کے گھروں میں زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
حکومت نے ایک بہت بڑی ایمنیسٹی اسکیم کا بھی اعلان کیا جس کے ذریعے لوگوں کو یہ پیش کش کی گئی کہ وہ گھروں میں چھپائی ہوئی دولت ، ڈالر ، سونا اور ایسی جائیدادیں جو انہوں نے پہلے کبھی ظاہر نہ کی ہوں ، وہ یہ سب کچھ ریکارڈ پر لے آئیں تو ان سے منی ٹریل کا سوال نہیں ہوگا ، اس اسکیم نے ملکی معیشت کو نیا خون فراہم کیا اور خزانے کے اکھڑے ہوئے سانس بحال ہونا شروع ہوگئے ۔نواز شریف حکومت ملکی معیشت کے لیے ایک اور پہلو سے بھی بد بختی کاباعث بنی کہ اسے دو ہزار تیران میں اقتدار میں آنے پر اٹھارہ ارب ڈالر کا زر مبادلہ ورثے میں ملا جسے ان کی بیڈ گورننس کی دیمک نے چاٹ کر نو ارب ڈالر تک گرا دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے زرمبادلہ کے ذخائر کی اس کمی کو پہلے دو سالوں میں دور کردیا ۔
وزیر اعظم عمران خان کا ویژن یہ ہے کہ لیڈر وہ ہے جو حوصلے سے کام لے اور مستقبل پر نظرر کھے۔ وزیر اعظم کے اسی ویژن نے قدم قدم پر ان کا ہاتھ تھاما ہے۔
یہ کہانی ایک کٹھن سفر کی ہے جسے وزیر اعظم نے استقامت سے طے کیا ہے اور سال انیس کے اختتام پر انہوںنے قوم کو نوید دی کہ مشکل اورا ٓزمائش کا وقت ختم ہوا۔ اب ہمیں آگے ہی آگے بڑھنا ہے۔
٭…٭…٭