پاکستان میںکاٹن سیزن کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے سندھ میں 115جبکہ پنجاب میں 100کاٹن فیکٹریوں کے گیٹ اوپن ہو چکے ہیں اور عاشورہ کے بعد تمام کاٹن فیکٹریاں چل پڑیں گی کاٹن سیزن 2021-22کے شروع سے ہی پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (PCGA)اور اپٹما میں نمی اور آلودگی کو لیکر جھگڑے شروع ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں نئے نئے مسائل سامنے آ رہے ہیں سب سے افسوناک پہلو یہ ہے کہ ان جھگڑوں کے حل کیلئے کوئی فورم نہیں ہے جس کی وجہ سے کسی نہ کسی سٹیک ہولڈر کو بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے پاکستان میں گذشتہ سال مشکل سے 5.6ملین گانٹھ پیدا ہوئی تھیں اور اپٹما نے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے 7ملین گانٹھ (165کلوگرام )والی امپورٹ کی تھی گذشتہ سال پاکستان میں کاٹن کم معیاری تھی اور دام بھی امپورٹ ہونے والی روئی سے کم تھے رواں سیزن میں بہت کچھ بدلا ہواہے پاکستانی کاٹن کی قیمت اس وقت انٹرنیشنل کاٹن کی قیمت کے برابر ہے 13200سے لیکر 13800روپے فی ماونڈ (37.324کلو گرام)لیکن معیار کم ہے نمی اور ٹریش زیادہ ہے جبکہ ریشہ کی لمبائی کاٹن کی آرڈی اور دیگر پیرا میٹر بھی کم ہیں اور سب سے اہم کہ جینگ پروسس بہت زیادہ غیر معیاری ہے اور اپٹما چاہتی ہے کہ جب وہ قیمت انٹرنیشنل کاٹن کی دے رہے ہیں تو اسے پاکستان میں انٹرنیشنل معیار کی کاٹن بھی ملے لیکن پاکستان میں معیاری جینگ ہونا ممکن ہی نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کاٹن جینگ مشینری 1960کی دہائی کی ہے جو اعلیٰ پھٹی کو بھی جینگ میں برباد کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام جنرز اپٹما کی ہر زیادتی برادشت کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس متبادل خریدار نہیں ہے کیونکہ اگر کاٹن ایکسپورٹ کی جائے تو اس کیلئے معیاری جینگ ہونا لازمی ہے حکومت نے حال ہی میں کپاس کی فی 40کلو گرام کی امدادی قیمت 5000مقررکر کے اعلان کیا ہے کہ دو لاکھ گانٹھ TCPخریدے گی جو کہ ایک مذاق ہی لگتا ہے کیونکہ اس وقت کپاس کی قیمت 5800 سے6300 روپے من ہے اب 5000 روپے کوئی کاشتکار کیوں فروخت کرے گا لیکن اپٹما یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت نے پھٹی کا دام 5000روپے من مقرر کیا ہے تو اس حساب سے انہیں کاٹن ملنی چاہیے اس وقت دو اہم مسائل ہیں ایک طرف کاٹن کا دام امپورٹڈ کاٹن جتنا ہے جبکہ معیار بہت ہی کم ہے دوسری طرف کورونا کی وجہ سے سمندر میں موجود مال بردار جہازوں کا کم ہونا اور کرایوں میں اضافہ جیسے مسائل کی وجہ سے پاکستانی ملوں کی بیروں ملکوں سے آنے والی 11لاکھ بیلز تاخیر کا شکار ہیں جبکہ توقع کے برخلاف ڈالر کا 34دنوں میں 13روپے بلند ہو کر 164روپے کراس کرنا ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی ملوں کو گھبراہٹ کا شکار ہو کر مقامی مارکیٹ کا رخ کرنا پڑا اور وہ ملیں جو مقامی مارکیٹ میں نظر نہیں آتی تھیں وہ بھی لوکل مارکیٹ میں نظر آئیں اس صورتحال میں مقامی کاٹن مارکیٹ 15000سے پلس ہو سکتی ہے جبکہ کپاس کا ریٹ 7000روپے من سے بھی اوپر جاسکتا ہے جس کی وجہ یہ بنتی نظر آ رہی ہے کہ انڈیا کے کاٹن ایریامیں زبردست طوفانی بارشیں اور چین کے بھی کاٹن ایریا میں شدید موسم کی اطلاعات ہیں جس سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیزی نمایاں ہے نیو یار ک کا دسمبر کاٹن کنٹریکٹ 92سینٹ کو چھو رہاہے جبکہ برازیل میں کاٹن سٹاک کم ہو رہاہے اس لئے ابھی مقامی کاٹن مارکیٹ میں کمی کا چانس نہیں ہے جیسا کہ لگ رہاہے کہ یہ کاشتکارکا سال ہے اور معیاری پھٹی اس وقت 6300روپے من سے پلس ہے اب کچھ لوگوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہاکہ کاشتکار اتنے پیسے کمائے حالانکہ اسی کاشتکار نے ماضی میں اسی کپاس میں کھربوں کا نقصان کیا ہے لیکن اب اگر کاشتکار کو کچھ مل رہاہے تو سب اس پر نظر رکھ کر بیٹھے ہیں لوئر سندھ میں جہاں اس وقت پھٹی ارائیول عروج پر ہے میں روزانہ کسی نہ کسی کاٹن فیکٹری میں کپاس کا دام نیچے کرنے کا پلان بنتا ہے اگر معیاری کپاس سے جنرز اپنی ناقص مشینری کی وجہ سے بہتر کاٹن جینگ نہیں کر سکتے تو اس میں کاشتکار کا کیا قصور ہے اپٹما اور PCGAکے تنازعات میں کاشتکار کو لوٹنے کا پروگرا م بن رہاہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کاشتکار کیلئے کوئی کام کرے اور فوری طور پر ایک مربوط کاٹن پالیسی دے اور سب سے اہم کپاس کی امدادی قیمت 6000روپے من مقرر کی جائے ۔