آزادی کا 76واں سال اور نئے ہائی کمشنر کی تقریر 

چند روز بعد قوم آزادی وطن کا 76واں تاریخی دن انتہائی تزک و احتشام سے منانے جا رہی ہے۔ سادہ ترین اور عام فہم الفاظ میں اس تاریخی دن کی اگر تعریف کی جائے تو وہ یوں کہ دنیا بھر میں Mother of Democracy کہلوانے والے برطانیہ عظمیٰ کے ”صاب بہادر“ سے آزادی اور خودمختاری حاصل کئے ہمیں آج 76 برس گزر چکے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں قوم نے کیا کھویا کیا پایا‘ طویل موضوع ہے جس پر پھر کبھی۔ تاہم 14 اگست کو حاصل کی گئی۔ آزادی کی خوشیوں اور مسرتوں کا سلسلہ ضرور قائم رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ ہم سے بہت پہلے اور چین نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی۔ دونوں ممالک کی ترقی سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی میدان میں دنیا کو لیڈ کرنے کی غیرمعمولی قوت کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت غیرجمہوری رویوں اور قومی و ملکی مسائل کے گرداب سے آج تک کیوں نہ نکل پائی‘ اہل فکرونظر کیلئے قطعی دشوار نہیں۔ اور یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا ہمارے حکمران تاہنوز جواب نہیں دے سکے۔ 14 اگست چونکہ ہماری آزادی کا دن ہے اس لئے ملک بھر میں چراغاں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ریڈیو‘ ٹی وی پر قیام پاکستان پروگرامز‘ موسیقی‘ شاعری اور قوالیوں کے خصوصی پروگراموں سے اہل وطن محظوظ ہوتے ہیں۔ مساجد میں ملکی سلامتی و ترقی کی دعائیں اور سرکاری و نیم سرکاری عمارات کو پرچموں سے سجایا جاتا ہے۔ وزیراعظم اور صدر مملکت کے قوم کے نام پیغامات اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے سفارت خانوں اور ہائی کمیشنوں میں منعقدہ پرچم کشائی کی تقاریب میں خصوصی شرکت کرتے ہوئے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہیں۔ 
یوم آزادی کے اس مبارک دن پر سفارت خانوں میں سموسوں‘ حلوہ پوری‘ مٹھائی اور بعض حالتوں میں تقاریب میں آئے افراد کی ”ست رنگیا چاولوں“ اور روسٹ مرغ پلاﺅ سے بھی تواضع کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے اگر صرف برطانوی بچوں کی بات کی جائے تو بعض پاکستانی والدین 14 اگست یا 23 مارچ کے حوالے سے اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح اپنے ہمراہ تقاریب میں تو لے آتے ہیں مگر بچوں کی جانب سے کئے گئے سوالوںکے پہلے بنیادی سوال کا جواب دینا والدین کیلئے باعث شرمندگی بن جاتا ہے۔ ”اولیول‘ اے لیول“ مدارج سے گزرنے والا بچہ باادب ہونے کے باوجود اپنے والد محترم سے جب یہ پہلا سوال پوچھتا ہے کہ ”ڈیڈ! پیدائش تو آپکی پاکستان میں ہوئی‘ ابتدائی تعلیم بھی آپ نے وہاں سے حاصل کی‘ پھر خوشحالی کے حصول کیلئے آپ نے انگلستان کا رخ اختیار کرلیا اور یہاں آکر آپ ہمیں اب اردو بولنے‘ اردو سیکھنے اور اردو لکھنے کی ٹونٹی فور آور ہدایات دے رہے ہیں مگر خود ہم سے انگریزی میں گفتگو کرنے میں فخر ہی محسوس نہیں کرتے، یہ ظاہر بھی کرنا چاہتے ہیں کہ انگریزی بولنے سے علمیت زیادہ عیاں ہوتی ہے۔ اپنے سفارت خانوں میں آپ ہمیں ساتھ چلنے کے جذبہ سے روشناس کرواتے ہوئے پاکستان کی اہمیت کا احساس بھی دلاتے ہیں مگر خود آپ کو اپنے ہی وطن میں ابھی تک ووٹ دینے اور آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں۔ اس قومی طرز عمل کو Hypocrisy کہنا کیا درست نہیں؟
اب جس روز سے ان بچوں نے یہ خبر پڑھی ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران پاکستان سے چار لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک جا چکے ہیں جن کا بنیادی مقصد بہتر ملازمتوں اور خوشحالی کا حصول اور اپنے بزرگ والدین اور کنبہ کو مالی استحکام سے دوچارکرنا ہے‘ والدین کو دیئے سوالنامے میں انہوں نے مزید سوالوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ بیرون ملک سفارت خانوں میں بچوں کو قومی تقریبات میں شرکت کیلئے ضرور ساتھ لانا اس لئے بھی اہم ہے تاکہ انہیں اپنے والدین کے آبائی وطن کی آزادی‘ حضرت علامہ اقبال اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی کاوشوں اور دی گئی قربانیوں کا ادراک ہو سکے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم بچوں کو قیام پاکستان اور موجودہ پاکستان کے بارے میں کئے انکے تلخ سوالات کا درست مگر انتہائی احتیاط سے جواب دیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ آگاہ کرنا ہے کہ ایٹمی قوت اور معدنیات سے بھرے سرسبز و شاداب پاکستان کی مزید ترقی و استحکام کیلئے من حیث القوم اتحاد و یکجہتی‘ محبت‘ نیک نیتی‘ فرض شناسی‘ ایمان کی مضبوطی اور قوت برداشت کو فروغ دینا ہے‘ یہی وہ اوصاف ہیں جن سے قومیں دنیا میں باوقار کہلاتی ہیں۔ 
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ برطانیہ میں ہمارے نئے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمدفیصل کی تعیناتی کی خبر موصول ہوئی۔ ڈاکٹر فیصل جرمنی میں بطور سفیر پاکستان خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ ایک انتہائی منجھے ہوئے سفارت کار اور فارن سروس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ دارالسلام‘ برسلز اور جدہ سمیت دنیا کے متعدد پاکستانی مشنز میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ پاکستان میں وزارت خارجہ کے ترجمان‘ ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ توقع ہے کہ ڈاکٹر فیصل پاکستان اور برطانیہ کے درمیان قائم دیرینہ دوستانہ اور دو طرفہ تعلقات کو جہاں مزید گہرا اور مستحکم بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے‘ وہیں برطانوی پاکستانیوں کو انہیں وطن کے حوالے سے درپیش مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے بھرپور خصوصی اقدامات اٹھائیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...