سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان صاحب نے اپنی سوانح حیات ”ارشاد نامہ“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کی تھی جس کی پذیرائی کرنااس لئے ضروری تھا کہ مصنف نے انتہائی سادہ اسلوب‘ اردو زبان میں اپنے بچپن سے لیکر ملک کے اعلٰی ترین عہدوں تک پہنچنے اور اپنے دور میں کئے گئے عدالتی فیصلوں کے متعلق سب کچھ قاری کی نظر کردیا۔ اس کتاب کے بارے میں میں نے ذاتی طورپر تو جو کچھ لکھنا تھا وہ نوائے وقت میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کالم کے لکھنے کا مقصد تو ارشاد نامہ کے متعلق نامور قانون دانوں اور دانشوروں کی آراءکو قارئین کی نذر کرنا ہے جوکہ ارشاد حسن خان صاحب نے کتابی شکل میں شائع کی ہیں اور میں انکا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے یہ کتاب مجھے بھی ارسال کی۔ اسی لئے زیادہ کوشش ہوگی کہ نامور قانون دانوں اور دانشوروں کی اس کتاب کے متعلق آراءاپنے قارئین تک پہنچاسکوں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان کے کتاب لکھنے کا سب سے اہم مقصد ظفر علی شاہ کیس میں عدالتی فیصلے کا ہر پہلوسے مکمل دفاع کرنا تھا جس میں جنرل پرویز مشرف کو تین سال میں الیکشن کرانے کا پابند بنایا گیا تھا اور آئین میں ناگزیر ترمیم کا بھی اختیار دیا گیا تھا۔اسی لئے میں بھی سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی کتاب کے متعلق آراءمیں سب سے پہلے ظفر علی شاہ کیس کے متعلق آراءقارئین کی نذر کررہا ہوں۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریٹائرمنٹ سے پہلے اس کتاب کے متعلق جو لکھا اس میں اہم یہ تھا کہ ”ظفر علی شاہ کیس کو بے حد محنت سے لکھا گیا ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی قوانین کا بے انتہا ذکر آیا ہے۔ یقینا یہ فیصلہ اس وقت کے لحاظ سے جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ آج بھی ہماری قانون کی کتاب میں موجود ہے اور اس میں قانون کے طالب علم‘ وکلاءاور جج صاحبان کے لئے مختلف قانونی نقاط کو سمجھنے کے لئے بے انتہاءمواد موجود ہے اور وہ اس سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ معروف قانون دان اعتزاز احسن نے ارشاد نامہ کے متعلق لکھا کہ قاری کو اس سوانح عمری کی سب سے دلچسپ بات مصنف کا بے ساختہ پن لگے گا۔ چیف جسٹس صاحب جو واقعہ بیان کرتے ہیں‘ انتہائی بے ساختگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ کسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کوئی ملاوٹ نہیں کرتے۔ اپنی کسی نیت یا ارادے کو مخفی نہیں رکھتے۔ کسی بھی دشوار مرحلے سے مصنف جس طرح اپنی سبک رفتار ذہانت کو کام میں لاتے ہوئے اور اکثر یک دم اپنی حکمت عملی کو موقع پر ہی تبدیل کرکے غیر متوقع مگر مثبت اور مفید نتائج حاصل کرتے ہیں‘ یقینا قاری اس پر رشک ہی کرسکتا ہے۔
معروف صحافی ‘ دانشور‘ شاعر و ادیب جناب سعید آسی جوکہ ایک طویل عرصے تک کورٹ رپورٹر رہے اور ان کا عدلیہ اور قانون دانوں سے بہت تعلق ہے۔ خود بھی قانون و آئین کے متعلق مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ انہوں نے ارشاد نامہ کے بارے میں لکھا کہ ظفر علی شاہ کیس میں جب خالد انور اور عدالتی معاون ایس ایم ظفر کے دیئے گئے دلائل کی روشنی میں عدالت عظمٰی نے متفقہ طور پر ملک میں جمہوری عمل کی بحالی کے لئے جنرل پرویز مشرف کو تین سال کی مہلت دینے کا فیصلہ صادر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی قرار دیا کہ وہ اس مقصد کے لئے آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں بشرطیکہ آئین کی کوئی شق ان کے اس اختیار کی راہ میں حائل نہ ہو۔ اس وقت کئی دوسرے مفکرین اور آئینی و قانونی ماہرین کی طرح میرا بھی فوری تاثریہی تھا کہ اس سے تو نظریہ ضرورت کو مزید موٹا تازہ ہونے کا موقع فراہم کردیا گیا ہے مگر اب ”ارشاد نامہ“ کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری رائے یکسر بدل گئی ہے اور میں اس امر کا قائل ہوگیا ہوں کہ عدالت عظمٰی کے اس فیصلہ سے تو درحقیقت نظریہ ضرورت کو بریک لگی ہے۔
معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے لکھا کہ ”اگر ہم نے جنرل مشرف کو تین سال تک محدود نہ رکھا ہوتا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ آج تک بیٹھا ہوتا“۔ ان کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ نصرت بھٹو کے مقدمہ میں سپریم کورٹ پاکستان نے جب اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر اس امیدکا اظہار کیا تھا کہ جنرل ضیاءالحق‘ چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جلد انتخابات کروادیں گے تو تاریخ نے دیکھا کہ وعدہ وفا نہ ہوا اور جنرل ضیاءالحق اپنی آخر عمر تک اقتدار میں رہے۔ کتاب کے پہلے چودہ ابواب میں داستان کا وہ حصہ کہ ایک یتیم اور سائیکل سوار بچہ کس طرح بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا‘ بڑے دل پذیراور دلچسپ اندازمیں بیان کیا گیا ہے۔
معروف قانون دان‘ سیاستدان اور دانشور وسیم سجاد نے لکھا کہ ”ارشاد نامہ“ ملک کی سیاسی ‘ قانونی تاریخ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے۔ یقین واثق ہے کہ اسے قانون دانوں کے ساتھ ساتھ وکلائ‘ جج صاحبان اور تاریخ کے طلباءبھی بڑی دلچسپی سے پڑھیں گے۔ میں اس عمدہ تصنیف کی تالیف پر جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ”ارشاد نامہ“ لکھ کر تاریخ کا قرض ادار دیا ہے۔ (جاری ہے)