ایک پیغام، چیئرمین پنجاب ایچ ای سی کے نام

اٹھارھویں ترمیم کی وجہ سے صوبائی سطح پر جو ادارے وجود میں آئے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشنز (ایچ ای سیز) بھی ان میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں یہ ایک بڑا تضاد ہے کہ صوبائی سطح پر بھی ایچ ای سیز کام کررہے ہیں اور ساتھ ہی وفاق میں بھی ایچ ای سی موجود ہے جس کے اختیارات مذکورہ صوبائی اداروں سے کہیں بڑھ کر ہیں جس کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم اور اس سے متعلقہ مسائل کو کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں ہے اس لیے ابھی تک ان مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی۔ باتیں بہت سی ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جاتے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں یا اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے وابستہ افراد کے مسائل کم کرنے میں کوئی کردار ادا کریں بلکہ بہت سے مسائل تو ایسے ہیں جن کے بارے میں شاید ایچ ای سیز سے جڑے ہوئے لوگ بھی واقف نہیں ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت ہم جن بڑے بڑے مسائل کا شکار ہیں انھیں حل کرنے کے لیے ہمیں اعلیٰ تعلیم کی بجائے بنیادی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن معاشرے میں ایسی تبدیلی آئے گی جس سے پاکستان کے مضبوط اور مستحکم ملک بننے کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔ دنیا بھر میں اسی فارمولے پر عمل کر کے بہت سے ممالک نے اپنے ہاں مثبت تبدیلیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور پھر معاشرے کے مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے سے ان ممالک کے معاملات میں واضح بہتری دکھائی دینے لگی۔ پاکستان کو اس سلسلے میں ان ممالک کی مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں خود کو اپنے نظامِ تعلیم کی بنیاد پر منوا چکے ہیں۔ بنیادی تعلیم کے اداروں میں بہتری لائے بغیر معاشرے کی تعمیر و ترقی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔
یہ سب کچھ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں پر توجہ ہرگز نہ دی جائے یا انھیں جوں کا توں چلنے دیا جائے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کے ادارے اور ان سے وابستہ افراد جن مسائل کا شکار ہیں ان میں ایک بڑا ایچ ای سیز کی دین ہے اور اگر حکومت ایچ ای سیز کے معاملات پر توجہ دے تو ان مسائل پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایچ ای سیز کے کام کرنے کے طریقوں کو اگر بہتر بنا لیا جائے تو ہم ایسے افراد تیار کرنے کے قابل ہو جائیں گے جو ہمارے بنیادی تعلیم کے اداروں کی بہتری کے لیے کردار ادا کریں گے اور ان کے اس کردار سے ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ انگریزی محاورے کے مطابق، یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں دو امور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے بگاڑ کا شکار ہیں، یعنی اعلیٰ تعلیم کے ادارے اس سے بہتر کام نہیں کررہے کہ ہمارے ہاں بنیادی تعلیم کے ادارے مسائل کا شکار ہیں اور بنیادی تعلیم کے ادارے اس لیے مسائل کا شکار ہیں کیونکہ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے ادارے ایسے افراد پیدا نہیں کررہے جو بنیادی تعلیم کے اداروں کو بہتر بناسکیں۔
اس تناظر میں اگر پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بات کی جائے تو اس کی طرف سے کام تو بہت سا کیا جارہا ہے لیکن کئی ایسے معاملات بھی ہیں جن پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجاب ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر پنجاب بھر کی جامعات کے وائس چانسلرز کو اپنے ساتھ ملا کر کئی امور میں بہتری لارہے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔ پنجاب ایچ ای سی کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے وابستہ افراد کو ذاتی بہتری کے لیے جو سہولیات مہیا کی جارہی ہیں انھی میں سے ایک سہولت یہ بھی ہے کہ پی ایچ ڈی کے حامل افراد کو پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے دنیا کے بہترین اداروں میں بھیجا جاتا ہے جہاں وہ تقریباً دس مہینے کا عرصہ گزارتے ہیں اور وہاں اپنے قیام کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے اساتذہ اور محققین کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے یہ سیکھتے ہیں کہ وہ تحقیق کے میدان میں اپنے کام کو کیسے نکھار سکتے ہیں۔
پنجاب ایچ ای سی کی طرف سے بین الاقوامی پوسٹ ڈاکٹریٹ کی جو سہولت دی جاتی ہے اس کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں درخواست دینے کے لیے امیدواروں کو بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاہدمنیر خود بیرونِ ممالک سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں، لہٰذا وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ وہاں پروفیسروں سے رابطہ کرنا اور پھر اپنے تحقیقی منصوبے پر کام کرنے کے لیے ان کی آمادگی حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ مزید یہ کہ سرکاری ملازمین کے لیے اپنے محکمے سے اجازت یا این او سی لینا اس سے مشکل تر معاملہ ہے جس کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب ایچ ای سی کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے درخواست دینے والے امیدواروں کو کم از کم ڈیڑھ سے دو ماہ کا وقت دیا کرے تاکہ وہ سہولت سے اپنی درخواستیں مکمل کر کے ایچ ای سی تک پہنچا سکیں۔ امید ہے کہ چیئرمین پنجاب ایچ ای سی ڈاکٹر شاہد منیر اس مسئلے پر خصوصی توجہ ددیتے ہوئے درخواست دینے کی تاریخ میں اضافہ کر کے پنجاب بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے جڑے ہوئے افراد کے لیے آسانی پیدا کریں گے ۔

ای پیپر دی نیشن