ترقی یافتہ ممالک کے تھانوں میں ایک سسٹم لگا ہوا ہے‘ یہ نظام علاقہ میں ہونے والی فائرنگ اور اسکی سمت کا تعین کرتا ہے۔ پولیس دو تین منٹ میں جائے وقوعہ پر موجود ہوتی ہے‘ پاکستان میں ایسا مربوط نظام نہیں ہے لیکن اگر کسی بچے نے چھت پر پتنگ ا±ڑالی ہے‘ مستی میں آکر کوئی پھلجڑی یا کوئی پٹاخہ چلالیا ہے....! پلک جھپکنے سے پہلے ہی پولیس پہنچ جایا کرتی ہے۔ اگر بچہ ہاتھ نہ آئے تو گھر کے سربراہ کو ہتھکڑی پہنا کر تھانے میں لے جایا جاتا ہے۔ اس چھوٹے سے ایشو پر انکی توجہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے سارے ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالادستی قائم ہوگئی ہے۔ چوری‘ ڈکیتی‘ منشیات فروشی اور قتل و غارت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ تبھی تو پولیس والے چھوٹے چھوٹے جرائم کی بیخ کنی پر لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چوری‘ ڈکیتی اور فائرنگ کے مقامات پر پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ تب تک ڈکیت اور راہزن اگلی واردات بھی پایہ تکمیل تک پہنچا کر محفوظ مقام تک رسائی حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔
پچھلے برس 14 اگست کی یادداشت ہے‘ مجھے فیصل آباد کے ایک گاﺅں سے اپنے کزن خالد محمود گوندل کا فون آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسکی طبیعت بہت خراب ہے‘ وہ مجھے کہنے لگا‘ پلیز مجھے لاہور لے جاﺅ۔ میں نے اسکے حکم کی فوری تعمیل کی‘ اسکی بیماری اور ہماری آپس کی محبت و قرابت داری کا شاید یہی تقاضا تھا‘ جسے نبھانا میرا فریضہ تھا۔ میں اپنے ایک عزیز کو ساتھ لیکر گاﺅں کی طرف روانہ ہوا۔ ہم رات 12 بجے اپنی منزل پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چونکہ اسکی طبیعت کافی خراب تھی‘ ہم نے لاہور کے ہسپتال میں پہنچنا تھا‘ لہٰذا آدھا گھنٹہ قیام کرنے کے بعد وہاں سے چل پڑے۔ ہم منڈی تاندلیانوالہ سے فیصل آباد روڈ پر اوکاڑہ کی جانب سفر کررہے تھے۔ رات ایک بجے کا ٹائم تھا‘ ہماری گاڑی 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے کارپٹ روڈ پر رواں دواں تھی۔ یکلخت ٹھاہ کی آواز آئی‘ طاہر محمود گوندل نے گاڑی اور تیز کردی تھی‘ ہمارا ٹائر پھٹ گیا ہے‘ یار گاڑی کھڑی کردو‘ میں نے اتنا کہا ہی تھا کہ وہ چیخ پڑا‘ ”گاڑی کا ٹائر پنکچر نہیں ہوا‘ کسی نے آتشیں اسلحہ سے ٹائر کو برسٹ مارا ہے۔ میں نے ایک شخص کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھا ہے“۔ ہماری گاڑی الٹنے سے بچ گئی تھی‘ اس نے اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ کردیا تھا۔ وہ اپنی گاڑی کو پھٹے ٹائر کیساتھ ڈرائیو کرکے جائے وقوعہ سے ایک مربع آگے تک لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ ہم ایک پٹرول پمپ کے اندر داخل ہوگئے‘ ہمارا شور سن کر چارپائیوں پر سوئے ہوئے لوگ اٹھ گئے‘ ہم نے سب سے پہلے اپنی گاڑی کو دیکھا‘ ٹائر کیساتھ رِم میں بھی سوراخ ہوگئے تھے‘ گولیاں اس لوہے کے آرپار ہوگئی تھیں۔ ہم پولیس کو ٹیلی فون کرنے میں مصروف تھے جبکہ سیکورٹی گارڈ خوف و وحشت کی فضا کو ختم کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ کررہے تھے۔ یہ واقعہ 14 اگست کی شب وقوع پذیر ہوا۔ یہ آزادی کے طلوع ہونے والے سورج کی پہلی رات تھی۔ سارا سال کالا دھندہ کرنیوالے یوم آزادی پر ایک روز ناغہ ہی کرلیتے۔ دنیا کا وہ پہلا ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا‘ اسکی کچھ تکریم ہوجاتی۔ اپنے پ±رکھوں کے فیصلے کو کچھ دادِ تحسین مل جاتی‘ یہ اس بات کا برملا اعلان تھا کہ اب ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں‘ یہ ہمارا اپنا ملک ہے‘ ہمارے ہاں اصول اور ضابطے کوئی حیثیت نہیں رکھتے‘ ہر طرح کی قیود اور قانون سے آزاد ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل ہندو مسلمانوں کو لوٹا کرتے تھے لیکن اب قیام پاکستان کے بعد مسلمان مسلمانوں کو لوٹتے ہیں۔ یوم آزادی پر بھی لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے‘ تجدید عہد کی جا رہی ہے۔
ہم نے گاڑی کا ٹائر تبدیل کرلیا تھا‘ جس سمت سے ہم آئے تھے ا±س جانب جانے والی گاڑیاں ریورس گیئر لگا کر واپس آرہی تھیں۔ ہم پٹرول پمپ پر اکیلے ہی آئے تھے لیکن اب وہاں پر میلے کا سماں تھا۔ ہم ایک کارواں کی شکل اختیار کرگئے تھے۔ ہمارے ساتھ یقیناً دوسرے لوگوں نے بھی فون کیا ہوگا لیکن آدھا گھنٹہ گزر جانے کے باوجود پولیس ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔ ایک شخص ڈاکوﺅں کے بالکل قریب سے گاڑی بھگا کر واپس پلٹ آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ”ڈاکو سڑک پر ناکہ لگا کر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ‘کچھ گاڑیاں سڑک سے نیچے کھیتوں میں بھی کھڑی ہوئی تھیں“۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہم بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اگر ہم رک جاتے تو سب سے پہلا شکار ہم نے بننا تھا‘ ہمارے بعد کسی اور گاڑی کو نشانہ بناکر سڑک بلاک کی گئی ہوگی۔ یہ ایک بڑی منظم واردات تھی‘ پٹرول پمپ کے ملازمین نے ہمارے خیالات کو مزید تقویت دیدی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ”چھوٹے موٹے واقعات تو روز کا معمول ہیں لیکن کبھی کبھار اس طرح کی بڑی واردات ہوتی ہے۔ ڈاکوﺅں کو باقاعدہ ٹائم بیچا جاتا ہے‘ جتنی دیر واردات ہوتی رہتی ہے تب تک پولیس نہیں پہنچتی۔ فروخت شدہ ٹائم فریم پندرہ منٹ سے بیس منٹ کے دورانیہ سے زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن آج 14 اگست کی وجہ سے انہیں زیادہ ٹائم دیدیا گیا ہے‘ واردات ابھی جاری ہے‘ جب پولیس کی گاڑی سائرن بجاتے ہوئے تمہارے پاس آئے گی‘ تب سمجھ لینا ڈاکو جاچکے ہیں“۔ پولیس ابھی تک نہیں پہنچی تھی‘ میرے اردگرد سوچوں کے مہیب سائے تھے‘ ہمارے سرکاری اداروں میں سالانہ الاﺅنس بھی دیا جاتا ہے‘ آج شاید 14 اگست کی وجہ سے پندرہ منٹ کا بونس دیدیا گیا ہو‘ ایک یوم آزادی سے لیکر دوسرے یوم آزادی تک کی پارٹنرشپ کا ریوارڈ دیا جا رہا تھا:
لے گیا نوچ کر مجھے صاحب
جس کو جتنی میری ضرورت تھی
ایک شخص میری گاڑی کے ٹائر اور رِم کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ وہ رِم کے آر پار ہونیوالے سوراخوں پر انگلی رکھ کر مہلک اور آتشیں ہتھیار کے متعلق بتانے لگ گیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ایسا اسلحہ اب کم لوگوں کے پاس ہے‘ بہرحال کرایہ پر ہر قسم کا ہتھیار دستیاب ہے۔ کیا رینٹ اے کار کی طرح رینٹ اے اسلحہ بھی ہوتا ہے؟ وہ ہنس پڑا‘ ڈکیت جو اسلحہ استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ تر کرائے کا ہوتا ہے‘ پولیس بیک اَپ کے علیحدہ پیسے ہوتے ہیں‘ اگر آپ یہ پیکیج نہیں لینا چاہتے تو گرفتاری کی صورت میں رہائی کا ریٹ بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ناجائز اسلحہ کو خریدنا اور پھر اسے سنبھال کر رکھنا ہر شخص کے بس کا روگ نہیں ہے‘ لہٰذا رینٹ والے سسٹم سے تھوڑے پیسوں کیساتھ بھی کام چلایا جاسکتا ہے‘ حتیٰ کہ شخصی ضمانت پر اسلحہ ادھار بھی مل جاتا ہے۔ واردات کے بعد اسلحہ کیساتھ پیسے ادا کردئیے جاتے ہیں۔ یہ ایک منظم دھندہ ہے۔ میرے جنرل نالج میں اضافہ ہورہا تھا‘ مجھے کیسی کیسی معلومات مل رہی تھیں‘ یہاں پر تھانوں کا ریٹ لگتا ہے‘ یہاں پر سب بکتا ہے‘ یہاں پر اسلحہ کرایہ پر ملتا ہے‘ یہاں پر ایک ٹائم فریم میں فرض شناسی اور ضمیر کا بھی سودا ہوتا ہے۔