وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور ایسا ہی کچھ حالیہ مہینوں میں بھی دیکھنے میں آیا جب عمران خان اقتدار کے ایوان سے نکل کر پہلے سڑک پر آئے اور پھر اس کے بعد اپنے مزاج کی تندی کی وجہ سے معاملات کو مسلسل بگاڑتے ہوئے جیل میں پہنچ گئے۔ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو 5 سال کے لیے نا اہل قرار دیتے ہوئے باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور ساتھ ہی انھیں این اے 45 کرم ون سے ڈی نوٹیفائی بھی کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 3 سال سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو،ا لہٰذا وہ آئین کے آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت نااہل ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق، کسی سیاسی جماعت کے سربراہ پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں وہ جماعت پانچ سال تک الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو جائے گی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 اے (1) (سی) میں درج ہے کہ سیاسی جماعت کے لیے اس سزا کے مضمرات میں پارٹی پانچ سال کی مدت تک کسی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گی جبکہ پارٹی کا سربراہ پانچ سال کی مدت تک کسی بھی عوامی عہدے پر فائز رہنے کے لیے نااہل ہوگا۔ علاوہ ازیں، پارٹی کے اثاثے بھی پانچ سال کے لیے منجمد کیے جائیں گے۔ اس اثناءمیں الیکشن کمیشن میں پارٹی کی رجسٹریشن معطل رہے گی تاہم سیاسی جماعت کو نااہل قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی نہیں، اور متاثرہ پارٹی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے۔ ایک اہم فورم پر اپیل کا حق ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کرے اور بلیم گیم کا حصہ بننے کی بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر کے وہاں اس معاملے کو قانونی انداز میں پیش کرے۔ عمران خان خود بھی بار بار قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو اب انھیں اور ان کی جماعت کو عملی طور پر اس بات کا ثبوت دینا چاہیے کہ وہ قانون کے نفاذ اور انصاف کی فراہمی کے قائم ریاستی اداروں پر اعتماد کریں۔ سیاسی قیادت جب تک خود ریاستی اداروں پر اعتماد نہیں کرے گی تک تب عام آدمی سے اس بات کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ وہ ریاستی اداروں سے متعلق مثبت رائے قائم کریں۔ اس سلسلے میں صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی عملی اقدامات کے ذریعے ریاستی اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا۔