اعلان دستبرداری

ارے۔ کیسے کوئی بھولی بسری شے اچانک سامنے آکر حیرت زدہ کر دیتی ہے اور ساتھ ہی کئی بھولی ہوئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ جاتی ہیں۔ عرصہ ہوا‘ علامہ قبلہ طاہرالقادری کا نام گونجا کرتا تھا‘ پھر رفتہ رفتہ نذر طاق نسیاں ہو گیا۔ لوگ بھول ہی گئے کہ اس نام کا ایک نام بھی کوئی ہوا کرتا تھا۔ یادش بخیر والا معاملہ یوں ہوا کہ کل ایک چند سطری خبر اخبارات نے چھاپی کہ قبلہ نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ہرچند کہ وہ عشرہ بھر سے سیاست سے لاتعلق تھے‘ لیکن ریٹائرمنٹ کے باقاعدہ اعلان کی ضرورت اب محسوس ہوئی۔ یعنی یہ وہ اعلان ہے جسے ”نوشتہ“ ہونے کیلئے دس سال انتظار کرنا پڑا۔
................
قبلہ کی سیاست میں دھانسو قسم کی ”انٹری“ دسمبر 2012ءمیں ہوئی۔ ویسے سیاست میں وہ پہلے سے ہی آچکے تھے اور نوازشریف کے خلاف جس جہاد کی اجارہ داری بعد ازاں عمران خان نے حاصل کی‘ وہ پہلے ہی شروع کر چکے تھے۔ اسی جہاد کے دوران ان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا‘ اس وقت وہ غسل خانے میں تھے۔ کسی کو گولی لگی اور خون کے چھینٹے دیواروں پر پڑے۔ معاملے کی تحقیقات ہوئی‘ اور جب خون کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ بکرے کا خون تھا۔ اس پر خاصا ہلہ مچا‘ لیکن قبلہ کے مریدین نے اسے حضرت کی کرامت پر محمول کیا۔ درویشوں کی نظر بھی کیا نظر ہوتی ہے ۔ اِدھر ڈالی‘ اُدھر انسانی خون بکرے کا خون بنا۔ ایک غیر متعلق بات یاد آگئی۔ ہمارے آبائی شہر میں ایک مولوی صاحب ہر وقت آمادہ دنگا فساد رہتے تھے۔ جو بھی ذرا الجھا‘ اسے گویا ٹکر رسید کر دیتے تھے۔ لوگوں نے ان کا نام ہی مولوی بکرا رکھ دیا۔مولوی بکرا کیلئے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مقابلے میں ڈٹ گیا تو مولوی صاحب سر پر پاﺅں رکھ کر بھاگنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے تھے۔ اگران کا خون ٹیسٹ کیا جاتا تو جانے رپورٹ میں کیا آتا۔
................
خیر مولوی صاحب‘ معاف کیجئے گا قبلہ مولانا ملا‘ طاہر القادری کی دھانسو انٹری کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ 2012ءکا سال تھا۔ اگلے سال الیکشن کی آمد آمد تھی کہ دسمبر کے شروع میں لاہور کے تمام دردیوار‘ کھمبے‘ شجر وجر‘ سب بڑے بڑے پوسٹروں اور بینروں سے بھر گئے جن پر لکھا تھا کہ سیاست نہیں‘ ریاست بچاﺅ‘ ریاست خطرے میں ہے جسے بچانے کیلئے قبلہ علامہ کینیڈا سے پاکستان کیلئے بس روانہ ہوا چاہتے ہیں۔ لوگ حیران تھے کہ راتوں رات اتنے لاکھوں بینر‘ پوسٹر کیسے لگ گئے۔ کون لگا گیا۔ ایک مرد عارف نے بتایا یہ فرشتوں کی کارستانی ہے۔
یہ وقت کے فرشتے تھے۔ آج 2023ءکا سال ہے‘ ان سب کی سبکدوشی ہو گئی اور وہ بھی طاق نسیاں کی زینت بن گئے۔
لوگ اشتہار کے مضمون کے معنوں کی تلاش میں رہے کہ آخر سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کا مطلب کیا ہے۔ مرد عارف نے پھر عصہ کشائی کی اور بتایا کہ اس کا مطلب ہے کہ الیکشن مت کراﺅ‘ مشرف کو واپس لاﺅ۔
................
جلسہ بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا کہ خود قبلہ علامہ نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ سیاسی موسمیات دان حیران تھے کہ قبلہ مولانا راتوں رات اتنے بڑے لیڈر کیسے بن گئے۔ یہاں بھی مرد عارف نے مدد کی اور بتایا کہ گردوں سے فرشتے قطار اندر قطار اترے تھے۔ اور اتنی کثرت سے اترے تھے کہ مینار پاکستان کا گراﺅنڈ خاصی حد تک بھر دیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھاکہ یہ وہی فرشتے تھے جنہوں نے ایک سال کیلئے مینار پاکستان کو اس وقت پوری طرح بھر دیا تھا جب عمران خان نے جلسہ کیا تھا۔ تعداد میں فرق کی وضاحت انہوں نے یہ کی کہ تب فرشتے زیادہ قطاروں میں اترے تھے۔
حضرت علامہ نے نوید دی کہ الیکشن سے پہلے کچھ اصلاحات ہونی چاہئیں۔ اندازہ یہ تھا اور ان کے انداز سے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ الیکشن نہیں ہونگے۔ پہلے 62‘ 63والی شقوں کے تحت وسیع البنیاد نااہلیاں ہونگی اور دو نئی پارٹیاں شراکتِ اقتدار کریں گی۔ ایک علامہ والی‘ دوسری خان صاحب والی۔ اس سے پہلے پرویزمشرف کے ریفرنڈم کے موقع پر بھی انہی دو جماعتوں کی حکمرانی کا طے ہوا تھا‘ لیکن بعد از ریفرنڈم پرویزمشرف”طے شدہ امور“ سے مکر گئے تھے۔
حضرت علامہ کی ان تھک کوشش اور خواہش کے باوجود الیکشن نہ رک سکے‘ ہو کر رہے۔ نوازشریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور حکومت بنا لی۔ حضرت علامہ واپس کینیڈا تشریف لے گئے‘ لیکن محض ایک سال بعد پھر تشریف لائے۔ اس بار ایک فیصلہ کن دھرنے کیلئے۔
یہ دھرنا ”جڑواں“ تھا۔ یعنی ایک جگہ علامہ والا‘ اس کے پہلو میں‘ ذرا سا ہٹ کر خان والا‘ خبر تھی کہ دھرنے بس چند دن رہیں گے جس کے بعد انگلی کھڑی ہوگی اور نوازشریف کا قصہ ختم‘ لیکن دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور انگلی کھڑی نہ ہوئی۔ ادھر خان صاحب بتاتے تھے کہ میرے دل میں ”اینٹوشن“ ہوئی ہے کہ کل نہیں تو پرسوں انگلی کھڑی ہو جائے گی۔ ادھر قبلہ علامہ بتاتے تھے کہ مجھے رات پھر بشارت ہوئی ہے کہ دو چار دن کی بات ہے‘ قصہ پاک۔
کل پرسوں میں 75 دن گزر گئے۔ قبلہ علامہ نے ایک روز فرمایا کہ مجھے رات بشارت ہوئی ہے کہ کل میں شہید ہو جاﺅں گا‘ میں نے اسی لئے راتوں رات کفن سلوا لیا ہے۔ انہوں نے کفن کی رونمائی بھی کی۔ کفن دیکھ کر مریدین پر از حد رقت طاری ہوئی اور کئی نے کہا‘ آپ کے بعد ہم بھی جی کر کیا کریں گے‘ ہم بھی کفن سلواتے ہیں۔ انہوں نے کفن سلوائے اور قبریں بھی کھود ڈالیں۔ کل بعد از شہادت انہی میں دفن ہونگے۔
75 ویں روز قبلہ علامہ نے کفن تہہ کرکے کسی مرید کو تبرک کے طورپر دیا اور خود کینیڈا تشریف لے گئے۔ دن گزر گئے‘ لوگ انہیں بھول بھال گئے۔ یہاں تک کہ گیارہ برس بیت گئے اور اب کل یہ خبر آئی کہ وہ سیاست سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔
................
ان کی 62‘ 63 والی خواہش تین برس بعد پوری ہوئی جب اقامہ برآمد ہوا اور نوازشریف تاحیات نااہل قرار پائے جس کے بعد ”جڑواں“ صاحب کی حکومت لائی گئی۔ آج کل ”جڑواں“ صاحب اٹک جیل میں ہیں۔ جہاں سے ان کا یہ دو دھاری بیان آیا ہے کہ میں تاحیات جیل میں رہنے کو تیار ہوں‘ لیکن فی الوقت کسی بھی طریقے سے مجھے جیل سے نکلواﺅ۔ یہ استدعا انہوں نے اپنے وکیلوںسے کی ہے۔ قیاس آرائی ہے کہ خواہش پوری ہو گئی تو جڑواں صاحب بھی قبلہ مولانا والا اعلان دستبرداری کر ڈالیں گے۔ تاخیر سے نہیں‘ بلا تاخیر۔

ای پیپر دی نیشن