انسانیت کی بقا کیلئے ایجادات 

میری نظر میں ........ڈاکٹر شوکت ورک 
انسانیت کی بقا کیلئے ایجادات 
ہمارے ملک میں مخصوص اورمتنازعہ طبقات اپنے اپنے مفادات کیلئے اپنے اپنے مذموم خیالات سے دوسروں کیخلاف نفرت کوہوادیتے رہے ہیں اوربدقسمتی سے یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔تحریک قیام پاکستان کے دوران بھی چند شخصیات انگلش زبان سیکھنے کیخلاف تھیں اورکچھ نام نہاد دانا جدیدایجادات سے استفادہ کرنے کی راہ میں دیواربنے رہے۔ آج ہماری مجموعی ناخواندگی اور پسماندگی میں اس مائنڈسیٹ کابڑا ہاتھ ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کر لے“۔اسلام اجتہاد اورایجاد کاحامی ہے۔آج سائنس جس مقام پرہے اس میں مسلمان سائنسدانوں کے تصورات ،ان کی خدمات اورایجادات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایجادات پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں ہوتی ، ہرریاست اورقوم کواس سے مستفیدہونے کاپوراحق ہے۔ بجلی، بلب،ہوائی جہاز،گاڑیاں اورٹیلیفون ایجاد کرنیوالے آج دنیا میں نہیں لیکن آج ہم میں سے کوئی بھی ان کے بغیر زندگی کاتصور نہیں کرسکتا۔طب کے میدان میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی ایجادات سے انسانیت کو فائدہ پہنچتارہا ہے۔ کوئی انسان یا معاشرہ آج غار کے دورمیں نہیں رہ سکتا۔وقت کے ساتھ ساتھ کوروناسمیت متعدد پیچیدہ بیماریوں کے انسانوں پرحملے دیکھنے میں آئے ہیں لہٰذاءانسانیت کی بقاءکیلئے ماہرین کے کلیدی کردارسے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کی طبی ایجادات بھی انسانیت کیلئے مفید ہیں، طبی ماہرین کی مہارت اپنی ریاست تک محدود نہیں ہوتی بلکہ دنیا کاہر بیمار انسان اس دوا یاایجاد سے مستفید ہوتا ہے۔عالمی برادری کو اپنے وسائل کارخ انسانیت کی طرف موڑنا ہوگا،مہلک وباﺅں سے نجات کیلئے موثر دواﺅں پرکام کیاجائے۔تصادم کے نتیجہ میں قیمتی جانوں کاضیاع ہوتا ہے، یہ سرمایہ بھوک اوربیماریوں سے نجات کیلئے صرف کیاجائے۔ میڈیکل سائنس سمیت آئی ٹی کے میدان میں امریکا کی شاندار ترقی پاکستان سمیت دنیا بھر کیلئے یقینا قابل قدر اور قابل تقلید ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان برابری اور بردباری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کومزید فروغ دیا جائے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کے فروغ اور سماجی سطح پر منتخب وفود کے تبادلے سے دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ دوستی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ امریکا میں شعبہ طب کے اندر ہونیوالی جدید تحقیق انسانیت کیلئے نوید سعید ہے۔ عالمی محققین اجتماعی ذہانت سے متعدد مہلک امراض سے نجات کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ مختلف اقوام کو انسانیت کی بقاءاور بہبود کیلئے باہمی غلط فہمیاں دور اور تلخیاں ختم کرنا ہوں گی۔ امریکا کی تعمیر وترقی کیلئے وہاں کئی کئی دہائیوں سے مقیم اوورسیز پاکستانیوں کی گرانقدر خدمات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
امریکا کے سائنسی ماہرین نے تسخیر کائنات کیلئے تحقیقات کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ امریکا قدرت کے پوشیدہ رازوں سے آگہی کیلئے فضاﺅں اورخلاﺅں میں سرگرداں ہے۔دنیا بھر کے انسانوں کوامریکا کے ادارہ" ناسا "کی وساطت سے کائنات کے بارے میں متعدد مفیدمعلومات تک رسائی ملی ہے۔ امریکا آج سماجی، سائنسی،طبی، دفاعی اورمعاشی اعتبار سے جس مقام پرہے وہ طویل اورانتھک جدوجہد کانتیجہ ہے۔آبائی امریکیوں کی ادویات کے میدان میں بہت سی ایجادات ہزاروں برسوںسے چلی آ رہی ہیں۔ اِن کا تعلق مغربی طب سے پہلے کے زمانے سے ہے اور اِن سے مغربی طب میں بھرپور مدد ملی ہے۔آبائی امریکی جسم کے دکھنے اور درد کو کم کرنے کیلئے بید کے درخت کی چھال چبایا کرتے تھے۔ اس چھال میں سیلیسین کے نام سے وہ فعال کیمیائی مادہ پایا جاتا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا اسپرین کی1897 ءمیں میں دریافت کی بنیاد بنا۔ وہ تصور بھی آبائی امریکیوں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا جس کی وجہ سے ویکسینیں تیار کی گئیں۔ ویکسینیں ایسی دوائیں ہیں جو کسی وائرس یا بیماری کے جراثیموں کی ترمیم شدہ قسم کو انسانی جسم میں داخل کر کے انسانوں کو متعلقہ وائرس یا بیماری سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جانز ہاپکنز کے صحت عامہ کے بلومبرگ سکول کی ریسرچ ایسوسی ایٹ، ڈاکٹر سوفی ای نیونر ان قبائل کی طرف توجہ دلاتی ہیں جو اپنے جسم کو کسی مادے کے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے ہونے والے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے ا±س مادے کو کم مقدار میں کھا لیا کرتے تھے۔ 
 آبائی امریکیوں کا بے بی فارمولہ دودھ ایجاد کرنے پر انسانیت ان کا شکریہ ادا کر سکتی ہے۔ اگر ماں کا دودھ دستیاب نہ ہوتو بے بی فارمولہ بچے کی صحت کیلئے اہم ہوتا ہے۔ امریکا میں وفاقی طور پر تسلیم شدہ 574 قبائل ہیں۔ تجارتی استحصال کے خدشات کی بنا پران کے زیادہ تر لوگ طب کی حیاتیاتی تحقیق سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن 2019 میں این آئی ایچ نے “نیشنل کانگریس آف امریکن انڈینز” کے ساتھ ایک قبائلی مشاورت کا انعقاد کیا تاکہ رہنماوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی جا سکے کہ تحقیقی عمل کے دوران وہ دانشورانہ املاک کی شرائط و ضوابط پر کب بات چیت کر سکتے ہیں۔ این آئی ایچ نے قبائل کی اپنی دریافتوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد کرنے کی خاطرطب کی حیاتیاتی تحقیق کے طریقہ کار کو واضح کرنے کا وعدہ بھی کیا۔این آئی ایچ کے مطابق مقامی امریکیوں کے خلاف طبی تحقیق میں کچھ ابتدائی زیادتیوں کے باوجود قبیلوں کے اراکین نے وبائی امراض، بیماریوں کی روک تھام اور متعدی بیماریوں کے علاج کے بارے میں کیے جانے والے مطالعات میں شامل ہو کر 50 سال سے زیادہ عرصے تک کامیابیاں حاصل کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے۔ ان مطالعات کے نتیجے میں بیماریوں اور اموات کو (خاص طور پر بچوں میں) روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گئے۔
ہاپکنز بلومبرگ پبلک ہیلتھ میگزین نے 1980 کی دہائی کی ایک مثال کا ذکر کیا جس میں بچوں کے ماہر ایک بھارتی ڈاکٹر نے وائٹ ماونٹین اپاچی قبیلے کے ساتھ مل کر تحقیق کی جس کے دوران پتہ چلا کہ دوا ملا پانی پلانے والے علاج بچوں میں اسہال سے ہونے والی اموات کو روکتے ہیں۔ اِس تاریخی تحقیق اور اس کے بعد کے مطالعہ، پیڈیا لائٹ کی تخلیق کا باعث بنا جو کہ اسہال کا ایک مقبول علاج ہے۔ سائنس دانوں نے کووڈ-19 کی تین ایسی ویکسینیں تیار کی تھیں جن کے طبی تجربات میں آبائی امریکیوں کی کمیونٹیوں نے شرکت کی تھی۔ اِس وبائی مرض کو ختم کرنے میں مدد کیلئے امریکا نے اِن ویکسینوں کی لاکھوں خوراکیں دوسرے ملکوں کو عطیہ کی تھیں۔این آئی ایچ نے روایتی طب اور مغربی سائنس کی صحت کی نئی کامیابیاں تلاش کرنے میں مدد کرنے کی خاطرثقافت اور سائنس کے باہمی ربط پر ایک لیکچر بھی منعقد کیا۔ “آبائی امریکی صدیوں سے شفا یابی کے روایتی علاج، یا شفا یابی کے طریقہ استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ان کا اعتراف کیا جائے، اور ان تعلیمات اور ان فہموں کو بعض مغربی علوم اور طریقوں کے ساتھ ملایا جائے تاکہ اِن دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔امریکا نے میڈیکل سائنس اورآئی ٹی کے میدان میں جو انقلاب برپاکیا ہے،اگر اسے ہمارے عہد کے انسان مذہبی نظریات سے بالاتر ہوکردیکھیں گے توزیادہ بہتر نتیجہ اخذ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن