اب نہیں تو کب!

فلسطین کی درد و خون کی تاریخ ایک کالم میں لکھنا ناممکن ہے۔یہ علاقہ جو ایک مدت میں مسلمانوں کا ہوا کرتاتھاتب دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یہودیوں کیلئے پوری دنیا کی زمین تنگ پڑ گئی تھی اور انھیں ہٹلر کی افواج قتل کررہی تھیں تو اُس وقت بچے ہوئے یہودیوں کو اسی سرزمین نے پناہ دی تھی۔اس کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں نے اس کو اپنا مسکن بنایااور ان کے اصلی باشندوںپر ظلم کی انتہاشروع ہوئی جو مسلسل آج بھی جاری ہے۔ 1973 ءمیں ایک مرتبہ عرب ومصریوں نے صہیونی طاقت کو مٹانے کی خوب کوشش کی لیکن امریکہ نے کیسے یہودیوں کی مدد کی ذرا دیکھیں۔
اسرائیل کے ہاتھوں پے در پے ہزیمت اٹھانے کے بعد عرب ممالک کو اپنی قوت بڑھانے اور کھویا ہوا قومی وقار بحال کرنے کا احساس پیدا ہو ا مصر میں اب جمال عبدالناصرکی جگہ انور السادات کی حکومت تھی جو دھمیے انداز میں جذبات سے بلندوبالاہوکر حقیقت پسندی کی شہرت رکھتے تھے ۔ ناصر کے انتقال پر صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی سے وہ حالات کا گہرا مطالعہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتاہے اس کیلئے صدر سادات نے انتہک کوشش کی اور اپنے ملک کی قومی زندگی سے ناپسندیدہ اور مشکوک کردار کے عناصر کو نکال کر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔1973ء میں سادات نے صدارت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کا عہدہ بھی سنبھال لیا دوسری طرف اسرائیل کے جارحانہ اقدام میں بھی تیزی آگئی ۔21 فروری کو اسرائیل کے لڑکا طیاروں نے لیبیا کے ایک مسافر جہاز کو مار گرایا جس میں 113افراد جان بحق ہوئے۔پھر 10اگست کو اسرائیلی طیاروں نے عراق کے شہری ہوابازی کے ایک طیارے کو ایک اسرائیلی ہوائی آڈے پر زبردستی اُتارلیا۔6اکتوبر کو مصر اور شام نے اپنے علاقے اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کی غرض سے فوجی کاروائی کا آغاز کیا۔انور سادات نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا ہے کہ جنگ کے ابتدائی تین دنوں میں شام اور مصر کے محاذپر اسرائیل کی ایک تہائی ائیر فورس تباہ ہوگئی تھی اس جنگ میں مصری فوج کی کارکردگی کئی لحاظ سے نمایاں رہی بقول سادات’پہلی الیکٹرانک جنگ جس میں نہایت کامیابی سے میزائیل استعمال کیے گئے تھے۔ اکتوبر1973ءمیں لڑی گئی مصریوں اور عربوں نے ثابت کردیا کہ وہ یہ جنگ صرف لڑہی نہیں سکتے بلکہ جیت بھی سکتے ہیں ۔اگر امریکہ نے اس جنگ میں مداخلت نہ کی ہوتی تو حالات بالکل مختلف ہوتے ۔حالانکہ امریکی مداخلت سے پہلے اسرائیل نے جوہتھیاراور جدید ٹیکنالوجی امریکہ سے حاصل کی تھی اس کے مقابلہ میں مصر اور عربوں کو دی گئی روسی ٹیکنالوجی بہت کم درجہ کی تھی ۔ہمارے علاقے میں ٹینکوں کی جنگ اور وہ بھی راکٹوں اور الیکٹرانک جنگ کے دور میں در حقیقت ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی ۔اس سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں روس نے کرسک کے مقام پر ٹینکوں کی بڑی جنگ کی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔اگرچہ اس جنگ میں پانچ سو سے زیادہ ٹینک استعمال نہیں کیے گئے تھے۔جبکہ اکتوبر1973ءکی جنگ میں جو روس کی پانچ سالہ جنگ کی بجائے صرف سترہ دن لڑی گئی تھی اس میں دونوں اطراف کے تین ہزار سے زیادہ ٹینک تباہ ہوئے جبکہ پانچ ہزار ٹینکوں نے جنگ میں حصہ لیا تھا ‘۔اس جنگ میں امریکہ نے اسرائیل کی کھل کر مدد کی۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جنگ شروع ہونے کے چار دن بعد ہی اسرائیلی حکومت نے صدر امریکہ کے نام پیغام میں کہا تھا کہ مصر کی پیش قدمی اگر اسی طرح جاری رہی تو چند دن میں اسرائیل کا وجود ختم ہوجائے گا۔خودموشے دایان کا یہ حال تھا کہ”غیر ملکی نامہ نگاروں کے سامنے روتے روتے وہ دہڑام سے زمین پر گر پڑا اور کہا کہ اسرائیل میں اتنی جان بھی نہیں رہی ہے کہ وہ مصریوں کو ایک اِنچ پیچھے ہٹاسکے اور اب ان کیلئے تل ابیب کی سڑک کھلی پڑی ہے ۔حوالہ دی ٹائمز لندن 11اکتوبر 1973ئ۔
امریکہ نے سیارچوں کے ذریعہ حاصل کردہ اہم اطلاعات اسرائیلی حکومت کو فراہم کرنا شروع کردیں۔ان سے فائدہ اٹھاکر اسرائیل نے بعض مقامات پر جوابی حملے کیے اور بعض دوسری جگہوں پر مصری فوجوں کی پیش قدمی رک دی ۔بہرحال صورت حال اس قدر سنگین ہوگئی کہ اسرائیل پر قاری ضرب لگانے کے باوجود مصر کو جنگ بندی قبول کرنی ہی پڑی ۔ شام کے صدر اسد کے نام ایک پیغام میں سادات نے کہا’میں نے ایک زخمی دل سے جنگ بندی کے مطالبہ کو منظور کرلیا ہے۔میں اسرائیل سے روز قیامت تک لڑنے کو تیار ہوں خواہ کچھ بھی ہوجائے لیکن میں امریکہ سے نہیں لڑسکتا ۔میں یہ پسند نہیں کرونگا کہ ایک مرتبہ پھر میری مسلح افواج تباہ ہوجائیں۔یا میرے ملک کے عوام ایک اور مصیبت میں پھنس جائیں ‘۔اس پیغام سے جنگ بندی قبول کرنے پر مصری صدر کے کرب ہی کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس سے اس خود اعتمادی کا پتہ بھی چلتا ہے جو عرب عوام اور افواج میں پیدا ہوگئی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ 1973ءکی جنگ سے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم بھی پاش پاش ہوگیا ۔اور امریکہ اگر بروقت اتنے بڑے پیمانے پر امداد نہ دیتا تو آج اسرائیلی مملکت کا وجود بھی نہ ہوتا ۔
اس جنگ کا اہم پہلوجہاں عرب ملکوں کی عسکری تنطیم اور ان کی افواج کی اعلیٰ فنی تربیت تھا وہاں جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ عربوں کا مثالی اتحاد بھی تھا ۔شاہ فیصل مرحوم کی قیادت میں عربوں نے اپنی تیل کی دولت کو وسیع تر قومی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اسرائیل نواز مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کرکے ان کی معیشت پر زبردست دباﺅ ڈالا۔ عربوں کی کامیابی میں ان کی ہمہ جہتی منصوبہ بندی کودخل حاصل تھا ۔
آج ایک دفعہ پھر مسلم اُمہ کو اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر مسلم ممالک نے فلسطینی عوام کو نظر انداز کیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں مسلمان مسلسل شہید ہورہے ہیں حتی ٰ کہ 31اگست کو حماس کے سربراہ اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ کو بھی تہران میں شہید کیا گیا ۔اس سے قبل دسمبر میں مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں حرمت اقصیٰ کانفرنس سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے اسماعیل ہینہ نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دیں تو جنگ رک سکتی ہے پاکستان سے ہمیں بہت سی امیدیں ہیں پاکستان اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کرسکتا ہے۔ لیکن اُس وقت یہاں کے حکمرانوں نے نظر انداز کیا میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کیونکہ ہر وقت مظلوموں کی نظریں پاکستان کی طرف ہوتیںہیں اب وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی زخم پر مرہم رکھیں اور صہیونی طاقت کا سرکوبی کریں ۔
حفیظ اللہ خان 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...