انقلاب ڈھاکہ، مغلیہ دور اور پاکستان

مشترکہ ہندوستان میں اگرچہ مسلمان حکمرانوں نے لگ بھگ ساڑھے آٹھ سو سال حکومت کی مگر پاکستان کے مطالعہ پاکستان میں 70 سال تک جو قابل فخر سنہری دور پڑھایا جاتا رہا وہ مغلوں کا 320 سالہ دور تھا۔ 
ہمارا ملک پاکستان چونکہ نیا بنا تھا اس لیے ہمارے پاس مغلوں کے دور کے علاوہ کوئی وراثتی تاریخ نہیں تھی جس پر فخر کیا جاتا۔ لیکن اگر ہم اپنے تعلیمی سلیبس خصوصی طور پر مطالعہ پاکستان میں مغلیہ دور کی مبالغہ آرائی کے برعکس اس کے زوال کی حقیقی وجوہات کی کہانیاں سناتے اور ان سے سبق لینے کا درس دیتے تو صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ 
اگرچہ مکمل مغلیہ دور عیاشی اور شوقینی کی داستانوں سے مزین ہے مگر اورنگزیب عالمگیر کے دور سے تباہی کی اصل داستان شروع ہوتی ھے۔ شاہی محلات میں موسیقی اور شراب کی محفلیں معمول تھیں۔ کبوتر بازی اور مجرے شہزادوں اور وزرا کے شوق خاص تھے اور پھر سونے پہ سوہاگہ یہ ہوا کہ اورنگزیب عالمگیر وزرا اور کمانڈر انتہائی نااہل لوگوں کو بناتا صرف یہ سوچ کر کہ اگر کوئی قابل کمانڈر بن گیا تو وہ فوج اور لوگوں کو بغاوت پہ اکسا کر اس کا تختہ الٹ سکتا ھے۔ ایک طرف اہل مغرب صنعتی انقلاب برپا کر رہے تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ مند ہو رہے تھے تو دوسری جانب اہل اسلام شاہی محلات میں سازشوں۔ عیاشیوں اور قلعے و مزارات بنانے میں مصروف تھے۔ نتیجہ کے طور پر 1857 میں انگریز نے مسلمان حکمرانوں کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔
انگریز کے سو سالہ دور کے بعد جنگ عظیم دوم کے نتیجہ میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو دو ملک انڈیا اور پاکستان بنے۔ ہٹ دھرمی۔ انا کی جنگ اور اقتدار کی ہوس نے دسمبر 1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے کئے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک بنگلہ دیش بن گیا اور ایک پاکستان۔مگر ہوا یوں کہ مغلیہ دور کے وارث دونوں اسلامی ممالک کا اشرافیہ اقتدار اور جمع دولت میں اس قدر مصروف رہا کہ کل بنگلہ دیش نے سقوط ڈھاکہ سے انقلاب ڈھاکہ کا سفر طے کر لیا۔ اگرچہ بنگلہ دیش بننے کے ساتھ ہی وہاں کی اشرافیہ اقتدار کی خاطر مغلیہ دور والی وراثتی روش پر کاربند رہی مگر گذشتہ پندرہ سال سے سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ نے ایک سول ڈکٹیٹر کے طور پر ظلم و بربریت۔اقربا پروری اور امتیازی رویہ کا جو بازار گرم کر رکھا تھا اس کا انجام انقلاب ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔ شیخ حسینہ نے فوج اور انتظامی ادارے اس قدر اپنے تابع کیے ہوئے تھے کہ جنوری 2024 کے الیکشن رزلٹ اپنی منشا کے مطابق حاصل کیے اور اپنی مخالف سیاستدان محترمہ خالدہ ضیا کو مسلسل جیل میں بند رکھا۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اس قدر مضبوط تھی کہ 1971 کے شیخ مجیب سے مخالف رائے رکھنے والے اور ان کی باقیات سے 57 فوجی افسروں اور جماعت اسلامی بشمول حفاظت اسلام بنگلہ دیش کے تقریبا 1000 لوگوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا یا پھر مروا دیا۔ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے حال ہی میں اپنے کزن وقار الزمان کو بنگلہ دیش کا آرمی چیف بنایا۔مگر اقتدار پھر بھی نہ بچ سکا۔ شیخ حسینہ نے اپنے پورے دور حکومت میں بنگلہ دیش کی عوام میں تقسیم جاری رکھی۔ ایک طرف 1971 میں انڈیا سے ٹریننگ لے کر پاکستان آرمی جنرل یحییٰ خان اور بھٹو کے خلاف لڑنے والے لوگ تھے جن کو بنگلہ دیش میں فریڈم فائیٹر کہا جاتا ھے تو دوسری جانب 1971 میں یا تو پاک آرمی کا ساتھ دینے والی عوام یا پھر غیر جانبدار رہنے والی عام عوام تھی۔ 
حال ہی میں انقلاب بنگلہ دیش کا باعث بننے والا شیخ حسینہ کا وہ غیر منصفانہ اور خود غرضی کا مظہر وہ فیصلہ تھا جو اس نے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کر دیا۔ یعنی تمام سرکاری نوکریوں میں شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ اور اس کے چاہنے والوں کے لئے مخصوص کوٹہ رکھ دیا گیا۔ 
اس غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف BUET بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علموں نے احتجاج شروع کر دیا۔ حقوق کے نام پر شروع ہونے والا یہ احتجاج اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ پورے ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ اور آخر کار انقلاب ڈھاکہ کا باعث بنا۔ 
بنگلہ دیش آرمی نے شیخ حسینہ کو ایک محفوظ راستہ دیا اور وہ بنگلہ ائیر فورس کے جہاز C130 میں اپنی بہن شیخ ریحانہ اور دوسرے فیملی میمبرز کے ہمراہ انڈیا کے Hindon ائیر بیس غازیہ آباد پر لینڈ کر گئی۔ 
ذرائع کے مطابق انڈیا اور امریکہ نے شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا اور پھر اس نے برطانیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سیاسی پناہ کا معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ھے۔ یاد رہے برطانیہ میں شیخ حسینہ کی حقیقی بھانجھی یعنی شیخ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق Tulip Siddiq برطانوی پارلیمنٹ کی رکن اور اکنامک منسٹر ہیں۔ 
حالیہ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کا سربراہ ڈاکٹر یونس کو بنا دیا گیا ھے ، واضع رہے کہ ڈاکٹر یونس بنگلہ دیش میں چھوٹے چھوٹے قرضے دینے والا گراہم بنک بنا کر دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 
دوسری جانب مغلیہ دور کے وارث ہم پاکستانی لوگ ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی فروری 2024 میں تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن کے ذریعے حکومت تو بنی ہوئی ہے مگر حکومت کو چلانے والے مغلیہ دور کی روش پر ہیں۔ یعنی گذشتہ حکومتوں کی طرح کوئی بھی وزارت اہل اور متعلقہ بندے کو نہیں دی گئی۔ وزارت اور مشاورت کا معیار صرف اور صرف چاپلوسی اور جھوٹی تعریفیں ہیں۔ ملک کو مجموعی طور پر ریورس گئیر لگا ہوا ھے۔ صاحب اختیار اور صاحب اقتدار ملکی ترقی اور خوشحالی کو پس پشت ڈال کر اپنی اپنی انا پرستی اور ہوس اقتدار میں مصروف عمل ہیں۔
مغلیہ دور کے دوسرے وارثوں یعنی ملک پاکستان کی خدا خیر کرے۔ 

ای پیپر دی نیشن