ہمارے حالات کب بہتر ہوں گے؟ کون کرے گا؟ کیسے کرے گا؟ یہ سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ سیاستدان ٹھیک کریں گے تو خیال آتا ہے کہ جنہوں نے خود ہی خراب کیے ہیں وہ ٹھیک کریں گے؟ اس کے لیے پہلے تو سب کا ایک ہونا ضروری ہے؟ جو شاید ناممکن ہے۔ سب کے سب اپنے اپنے ”مفادات“ کی دوڑ میں 76سال سے مگن ہیں۔ 76سال سے غریب سے غربت کے خاتمے کے نام پر ووٹ لے کر آنے والے دِن رات غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ ان کی جائیدادیں، محلات، کاروبار، پوری دنیا میں ہیں ، پھل پھول رہے ہیں۔ 76سال بعد بھی غریب صرف بجلی کا بِل ادا کرنے کے لیے گھر کا سامان فروخت کر رہا ہے۔ بھائی بِل کی وجہ سے سگے بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے؟ کیا معیشت ساری غریبوں سے بھاری بِل لے کر ہی سنبھلے گی؟ غریب کراہ رہا ہے، تڑپ رہا ہے۔ نہ اس کی طرف کوئی دیکھتا ہے نہ اس کی کوئی سن رہا ہے۔ یہ وطن تو عام لوگوں نے اپنے زندہ رہنے کے لیے بنایا تھا۔ حکمران طبقے اور اشرافیہ نے اپنے میڈیا ہاﺅسز بنا رکھے ہیں۔ غریب کے مسائل اب کون اجاگر کرے گا؟ عدالتیں شب و روز اشرافیہ کے مقدمات سننے میں مگن ہیں۔ دیکھتا ہوں کہ حکمران طبقے میں کوئی ایک بھی عوام کے مسائل کی بات نہیں کرتا۔ سب مراعات لیے جا رہے ہیں۔ اپنی اولادوں کے لیے دولت کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ اِن کی ڈکشنری میں ”عوام“ کا لفظ بھی کوئی نہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں چند دنوں، ساعتوں کی زندگی ہے۔ عوام پر ظلم نہ کریں، معیشت کی بحالی اور آئی ایم ایف سے جان چھڑانا نہایت ہی آسان ہے۔ 76سال سے جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر لوٹی ہوئی دولت ملکی خزانے میں جمع کرا دیں۔ چلو آپ بھی نیب کا طریقہ ”پلی بارگین“ اختیار کر لیں۔ لوٹی ہوئی رقم میں سے سب آدھی آدھی رقم فوری طور پر ملکی خزانے میں جمع کرا دیں، بِلوں میں ریلیف دینے کے لیے تمام سرکاری ادار ے بشمول وزیراعظم ہاﺅس، سپریم کورٹ، جو بھی واپڈاکے نادہندہ ہیں، ان کی بجلی منقطع کریں۔ ججز صاحبان کو دو ہزارفری یونٹ جو مِلتے ہیں واپس لیں۔ تنخواہیں و دیگر مراعات کافی ہیں۔ واپڈا ملازمین باقاعدہ ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں، فری یونٹ فوری ختم کریں، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، سینٹ ممبران جو بھی فری بجلی استعمال کرتا ہے، فوری طور پر ختم کریں۔ خدا کی قسم عام غریب آدمی کو فری بجلی ملے گی۔ ظلم نہ کریں۔ قائد اعظم و علامہ محمد اقبال نے صرف غریبوں پر ظلم کرنے کے لیے یہ الگ ملک نہیں بنایا تھا۔ 9مئی جنہوں نے کیا کرایا، حلفیہ چھان بین کریں، سزائیں دیں، موجودہ حکومتی پارٹیاں صرف 9مئی کے سہارے دن نہ گزاریں۔ عوام کوکچھ کر کے دکھائیں۔ ماضی میں آپ میں سے کون سی پارٹی ہے جس نے پاک فوج کے خلاف زہرنہیں اگلا یا انہیں برا بھلا نہیں کہا۔ آج آپ صرف 9مئی کی آڑ میں حکومتی مزے نہ لیں۔ آپ سب عمران خان کے دَور میں اسپتالوں میں داخل ہو گئے تھے۔ ہم نے تو ایک کالم میں لکھا تھا کہ نیب اپنے اسپتال بھی بنا لے۔ 9مئی نے آپ سب کو زیرو سے ہیرو بنا دیا، مگریہ وقت بھی گذر جائے گا۔ پاک فوج ہی بخدا ایک واحد منظم ادارہ تھا جس کی کچھ لوگ مخالفت اورکچھ ”مفاداتی“ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ بخدا آپ ”سیاستدانوں“ کے کرتوتوں کی وجہ سے پاک فوج کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے۔ پاک فوج ہماری جان ہے، اس ملک کی سلامتی کی ضامن ہے۔ بخدا زبردستی کسی سے بھی عزت و احترام نہیں کرایا جا سکتا۔ آپ کا کردار دوسروں کو آپ کا احترام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ آپ سب اگر خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں تو خدا کے لیے سب ایک میز پر بیٹھ جائیں۔ جب آپ ایک ہوں گے، سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے۔ پھر مِل کر اللہ کی رضا کی خوشنودی کے لیے عوام کی فلاح کے لیے کام کریں۔ جس کو عوام ووٹ دیں اسے موقع دیں۔ پانچ سال بعد عوام خود ہی اس کی ”کارکردگی“ کی بنا پر قبول کرے گی یا اٹھا کر پھینک دے گی۔ صرف ایک پارٹی ہی نہیں جس جس سے جو غلطیاں ہوئی ہیں، سرعام معافی مانگ لیں۔ سب ایک دوسرے کو معاف کر دیں۔ فوج ہمارے ملک کی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ اقتدار میں آکر مخالف سے بدلہ لینے اور اسے ذلیل کرنے کی کوشش نہ کریں، اللہ کی رضا کے حصول کے لیے دوستی و دشمنی رکھیں۔ قانون پر پہلے خود سختی سے عمل کریں اور پھر دوسروں سے کرائیں۔ عوام پرظلم نہ کریں، عوام کا استحصال نہ کریں۔ ان کے حقوق ان کو دہلیز پردیں۔ 76سال سے زبانی جمع خرچ والا معاملہ اب ختم کریں۔ اللہ کرے میری یہ خواہشات پوری ہو جائیں، ابھی تک تو صورتِ حال کچھ یوں ہے
قافلہ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
بخدا ابھی تک تو مجھے کہیں بھی کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ جب تک ہمارے اشرافیہ اپنی ذاتی اناﺅں کو اس ملک کے عوام کی خاطر بالخصوص اللہ کی رضا کی خوشنودی کے لیے قربان نہیں کریں گے۔ نہ معاشی استحکام آئے گا اور نہ ہی سیاسی حالات بہتر ہوں گے۔ موجودہ حالات میں حکومتی اور اپوزیشن میں مجھے کوئی ایک بھی عوام کے لیے آواز اٹھاتا نظر نہیں آرہا۔ سب اپنے اپنے ’مفادات‘ کے حصول کے چکر میں ہیں۔ عوام کا کوئی ایک بھی پرسانِ حال نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں مشہورہے کہ ایک جنگ میں آپ ایک مشرک کوقتل کرنے ہی والے تھے تو اس نے آپ کی داڑھی مبارک پر تھوک دیا۔ آپ نے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا۔ فرمایا میں نے تو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اِسے قتل کرنا تھا۔ اب اس میں میری ذات شامل ہو گئی ہے۔ تو بات یہ ہے کہ ہم سب کو اپنی ذات سے نکل کر اس ملک کے لیے کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا۔ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم پوری دنیا کے مقروض ہیں اور غریب عوام کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں۔ خدارا ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔