بنگلہ دیش کے طلبہ نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا خاتمہ کرکے جنوبی ایشیا میں نئی تاریخ رقم کی ہے- شیخ حسینہ کی بے آبرو ہو کر اقتدار سے رخصتی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ سابق وزیراعظم کی طویل آمرانہ اور منتقامانہ بھارت نواز پالیسیوں کا نتیجہ ہے- بقول شاعر !
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
شیخ حسینہ مسلسل پندرہ سال سے اقتدار میں تھیں- جنوری 2024ءمیں ہونے والے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے- شیخ حسینہ نے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا - ان کی سیاسی حریف بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا جیل میں تھیں- جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی اس کے بزرگ لیڈروں کو اس الزام پر پھانسی پر لٹکایا گیا کہ انہوں نے 1971ء میں رائج آئین کے مطابق پاکستان کا ساتھ دیا تھا- شیخ حسینہ کے دور میں معاشی ترقی ہوئی بنگلہ دیش تعلیم صحت ہیومن ریسورس خواتین کی ترقی معیشت اور آبادی کے کنٹرول کے حوالے سے پاکستان سے آگے نکل گیا -البتہ سماجی انصاف اور مساوی مواقع کے ابدی اصولوں پر عمل نہ کیا گیا جس کی وجہ سے نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا ہوا - آزادی کے ہیروز کے بچوں کو نوازنے کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا- نوجوانوں کے لیے یہ فیصلہ مساوات کے اصولوں کے منافی اور امتیازی تھا-
2018ءمیں یہ خصوصی کوٹہ کافی حد تک ختم کر دیا گیا تھا- چند ماہ پہلے سپریم کورٹ نے کوٹہ پھر بحال کر دیا البتہ 30 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا - طلبہ نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا- طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کا آغاز سڑکیں بند کر کے کیا- پولیس نے احتجاج کرنے والے طلبہ پر فائرنگ کر دی- چند نوجوان جان بحق ہوگئے- جس کا شدید ردعمل ہوا اور بنگالی عوام بھی احتجاج میں شریک ہوگئے- طلبا نے اپنی تحریک کو غیر سیاسی اور غیر جماعتی رکھا اور کسی جماعت کو اپنا پارٹی پرچم لانے کی اجازت نہ دی-احتجاج کی قیادت طلباءنے خود کی-البتہ ان کو اپوزیشن پارٹیوں کی خاموش تائید اور حمایت حاصل تھی- وزیراعظم شیخ حسینہ نے الزام عائد کیا کہ احتجاج کرنے والے طلباءپاکستانی رضاکار اور دہشت گرد ہیں اور ان کو جماعت اسلامی اور آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے-یہ الزام بے بنیاد تھا جسے بنگالی عوام نے قبول کرنے سے انکار کر دیا- اگر حکومت آغاز میں ہی طلبہ کا جائز مطالبہ تسلیم کر لیتی تو بات وزیراعظم کے استعفیٰ تک نہ پہنچتی -
شیخ حسینہ نے اپنے دور میں پولیس کا بے دریغ استعمال کرکے جبر اور تشدد کی حکمت عملی اپنائی - وزیراعظم حسینہ نے سپریم کورٹ کو ربڑ سٹیمپ بنا دیا-اس مزاحمتی تحریک میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے 26 سالہ ناہید اسلام مرکزی قائد کے طور پر نمودار ہوئے وہ اس تحریک کے مرکزی کوارڈینیٹر تھے-
طلبہ کی مزاحمتی تحریک روز بروز شدت اختیار کرتی چلی گئی کرفیو کے ہتھکنڈے بھی کار گر نہ ہو سکے- نوجوانوں نے سول نافرمانی کی تحریک بھی شروع کر دی -اس تحریک کے دوران 300 بنگالی شہری جان بحق ہوئے- بنگلہ دیش کی فوج نے مداخلت سے انکار کر دیا اور شیخ حسینہ کو آخرکار عوام کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا- آئرن لیڈی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہو گئیں-بنگالی فوج کے آرمی چیف جنرل زمان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ نے وزارت عظمی سے استعفیٰ دےدیا ہے اور ایک عبوری سیٹ اپ قائم کیا جائے گا- بنگلہ دیش کے صدر شہاب الدین نے عبوری حکومت کے سربراہ کے لیے اہل اور دیانت دار ڈاکٹر محمد یونس کا انتخاب کیا ہےجو نوبل انعام یافتہ ہیں اور جنہوں نے گرامین بنک کے ذریعے بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے لیے قابل تحسین اقدامات کیے اور لاکھوں گھرانوں کی خواتین کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کر دیا-
ڈاکٹر محمد یونس بنگالی قوم کے ہیرو ہیں جن کو شیخ حسینہ نے انتقامی کارروائی کر کےچھ ماہ کی سزا بھی دلوا دی-سپریم کورٹ نے ان کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور انہوں نے اپنے منصب کا حلف بھی اٹھا لیا ہے-اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے اور انہوں نے قوم سے خطاب بھی کیا ہے- عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس نے کہا ہے کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لیں گے بلکہ اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ملک کی تعمیر نو کریں گے-بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ چند ماہ کے بعد نئے انتخابات کرائے جائیں گے-
بنگلہ دیش میں طلباءکی کامیاب تحریک نے دنیا کے کئی ملکوں کو متاثر کیا ہے- اس کامیاب تحریک کا پہلا سبق یہ ہے کہ نوجوان اگر منظم ہو جائیں اور قومی کاز کے لیے مصمم ارادہ کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی-معاشی ترقی مساویانہ ہونی چاہیے-اگر معاشی ترقی عوام کو احساس محرومی کا شکار کر رہی ہو تو اس کا شدید رد عمل ہو سکتا ہے-
پاکستان کی تاریخ میں جنرل ایوب خان کا 10 سالہ دور ترقی اور خوشحالی کا دور تھا مگر اس ترقی اور خوشحالی نے 22 خاندانوں کی قومی دولت پر اجارہ داری قائم کر دی تھی اور زبردست احساس محرومی پیدا ہوا تھا جس کی وجہ سے ایوب خان کے خلاف طلبہ نے تحریک چلائی جو کامیاب ہوئی اور مرد آہن اقتدار سے محروم ہو گیا - ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے معاشی حوالے سے زبردست ترقی کی ہے مگر 2024 کے انتخابات میں نریندر مودی کو عوام کا وہ اعتماد حاصل نہ ہو سکا جو ان کی توقع تھی - ثابت ہوا کہ معاشی ترقی بھی اجتماعی اور مساوی ہونی چاہیے - عوام انصاف اور انسانی حقوق کو بڑی اہمیت دیتے ہیں-سیاسی انتقامی کارروائیوں، اظہار رائے پر پابندی اور آمرانہ پالیسیوں سے خاص طور پر نوجوانوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے- غصے اور نفرت کا لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے- پاکستان کے مقتدر اداروں کو بنگلہ دیش میں طلبہ کی مزاحمتی تحریک کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور قومی مفاہمت اور قومی یک جہتی کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان خدا نخواستہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو-