معزز قارئین ! حضرت خواجہ معین الدّین چشتی 587ھ (1191ئ)میں لاہور تشریف لائے۔ آپ نے کچھ عرصہ مزار داتا صاحب پر چلّہ کشی کی اور یہ شعر کہا ....
”گنج بخش، فیض عالم، مظہر نور خدا!
ناقصاں را پِیر کامِل، کاملاں را ،راہنما!“
یعنی۔ ” (حضرت داتا صاحب) خزانے بخشنے والے، تمام مخلوقات و موجودات کو بہت زیادہ فائدہ پہنچانے والے خدا کا نور ظاہر کرنے والے نامکمل لوگوں کے لئے کامل پِیر اور کامل (پیروں کے لئے) راہنما (راستہ دِکھانے والے) ہیں“۔
معزز قارئین! میرے آباو اجداد صدیوں سے اجمیر میں آباد تھے ، جنہوں نے حضرت خواجہ غریب نواز کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب ”تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن“ رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہوا۔میرے والد صاحب 1955ءمیں مجھے پہلی بار لاہور میں دربار حضرت داتا گنج بخش لائے تو مَیں نے ان کی راہنمائی میں احاطہ دربار شریف میں خواجہ غریب نواز کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ داتا صاحب پر۔ پھر میرا یہ معمول بن گیا کہ ”پہلے اپنے پیر مرشد کی چلّہ گاہ پر اور پھر بارگاہِ داتا گنج بخش میں!“۔
میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے۔ 1956ءمیں مَیں نے میٹرک کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو ، لائل پور (فیصل آباد) کے ایک روزنامہ میں شائع ہوئی۔ 1960ءمیں مَیں نے مسلک صحافت اختیا ر کِیا 1960 میں جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے۔ فائنل کا طالبعلم تھا۔ فروری 1964ءمیں جناب مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ”نوائے وقت“ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔
1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملی ترانے لکھے۔ ایک ترانہ ”محکمہ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان“ کی شائع کردہ ملی نغموں کی ضخیم کتاب میں شائع ہوا اور دوسرا ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ جنوری 1999ءمیں میرے دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ،سیّد انور محمود "Pakistan Broadcasting Corporation" کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ انہوں نے کئی شاعروں کے ترانوں کو نئے سرے سے ریکارڈ کروایا۔ میرا ترانہ پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان نے گایا۔
مَیں نے 11 جولائی 1973ءکو اپنا روزنامہ ”سیاست“ لاہور جاری کِیا۔ پھر مجھے اسلام آباد میں پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی Briefings" "Press میں جنابِ مجید نظامی سے بار بار ملنے کا اتفاق ہوااور "A.P.N.S" کی "Meetings" میں بھی۔1980ءکے اوائل میں میرے خواب میں، خواجہ غریب نواز، میرے گھر رونق افروز ہوئے۔آپ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہوا تھا اور جب مَیں نے اٹھ کر ان کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مسکراتے ہوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کھلی تو مَیں نے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا ، ان سے پانی مانگا تو انہوں نے کہا کہ ”ہمارے بیڈ روم میں تو خوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ “۔ پھر خواجہ غریب نواز کی برکات سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کھل گئے۔
ستمبر 1983ءمیں، مَیں نے خواب دیکھا کہ ”مَیں اور 1961ئ سے میرے سرگودھوی دوست سیّد علی جعفر زیدی ( سابق ہفت روزہ ”نصرت“ لاہور) کہیں پیدل جا رہے ہیں۔ راستے میں ایک خشک دریا تھا۔ زیدی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ”میرا اور آپ کا یہیں تک کا ساتھ تھا!“۔ مَیں نے دریا میں قدم رکھا، مٹی گیلی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ دلدل ہے۔ مَیں گھبرا گیا، میرا جسم آہستہ آہستہ دلدل میں دھنس رہا تھا کہ میرے منہ سے یا علی کا نعرہ نکل گیا، پھر مجھے کسی نے دلدل سے نکال کر کنارے پر اتار دِیا۔ ایک غیبی آواز سنائی دِی کہ ”تم پر مشکل کشا حضرت علیؓ کا سایہءشفقت ہے!“ سیّد علی جعفر زیدی 1983ءہی میں اپنے اہل و عیال سمیت لندن شفٹ ہوگئے تھے، جہاں وہ بہت بڑے بزنس مین اور ”برطانوی لیبر پارٹی“ کے اہم رکن ہیں۔
معزز قارئین ! قبل ازیں جولائی 2001ءکی ”آگرہ سربراہی کانفرنس“ میں صدر پرویز مشرف کے آگرہ، دہلی اور اجمیر شریف کے پروگرام تھے لیکن کانفرنس طول پکڑ گئی اور جب اجمیر شریف کا دورہ منسوخ ہوا تو مجھے اور دوسرے پاکستانی دوستوں کو بہت مایوسی ہوئی لیکن جون 2004ءمیں 1992ءسے میرے دوست سیّد انور محمود کے ذاتی اثر و رسوخ سے مجھے بھارتی سفارتخانے سے دہلی ،چنڈی گڑھ اور اجمیر شریف کا "Visa" مِل گیا تو مَیں نہال ہوگیا!۔
مَیں بذریعہ "P.I.A" دہلی پہنچا ،دہلی سے اجمیر شریف تک پہنچانے میں پاکستانی سفارتخانے کے "Minister for The Press" ، میرے دوست ، کامران علی خان نے مجھ سے محبت کی، پھر مَیں بذریعہ ٹرین دہلی سے اجمیر شریف پہنچ گیا تھا۔ راستے میں مَیں اپنے اور خواجہ غریب نواز کے بارے میں فارسی زبان کے اِس مقولے کو یاد کر رہا تھا کہ ....
” چہ نسبت خاک را ، با عالم پاک ؟ ‘ ‘