ارشد ندیم کی تاریخی کامیابی ، بھارتی حکومت کو پاکستانی آموں سے تکلیف اور شاہین تھری!!!!

ارشد ندیم نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ جیولین تھرو کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ارشد ندیم عالمی سطح کی سہولیات نہ ملنے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر بہترین ٹریننگ کرنے والے تمام کھلاڑیوں کو مات دے دی ہے۔ اولمپک مقابلوں کی تاریخ میں وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو دنیا میں جیولین تھرو کی طرف آنے والوں کے لیے ایک چیلنج بنا رہے گا۔ پاکستان میں ہر جگہ ارشد ندیم کا نام ہے، عالمی میڈیا بھی اس کی بہت کوریج کر رہا ہے۔ ہر جگہ پاکستان کا نام ہے، ارشد ندیم پنجاب یونیورسٹی میں بھی ٹریننگ کرتے رہے ہیں۔ کاش کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو فروغ دیا جائے، سپورٹس کوٹہ بڑھایا جائے تاکہ نوجوان ناصرف اعلی تعلیم حاصل کریں بلکہ کھیل کے شعبے میں بھی ملک کا نام روشن کریں ۔ آج ہر جگہ ارشد ندیم اس لیے ہیں کیونکہ انہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے ۔ ماضی میں کھیلوں کے فروغ میں تعلیمی اداروں کا کردار بہت اہم رہا ہے ۔ بالخصوص جامعہ پنجاب میں کھیلوں کی روایتی سرگرمیاں بحال ہونی چاہییں، تعلیمی اداروں میں سکول سے لے کر جامعہ کی سطح تک سپورٹس کوٹہ میں اضافہ اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ ملک کی تمام جامعات کو اس اہم ترین شعبے پر توجہ دینی چاہیے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں جب ڈاکٹر مجاہد کامران کے دور میں یونیورسٹی میں کھیلوں کو بہت اہمیت دی جاتی رہی۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ارشد ندیم کے گھر پر جشن ہو رہا ہے۔ یہی حالات ملک بھر میں ہیں۔ سب کے لیے یہ جیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس ایک گولڈ میڈل نے سیاسی قیادت کو بھی مختصر وقت کے لیے متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ہے کیونکہ سیاسی قیادت کا اتحاد پاکستان میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کامیابی پر مبارکباد اور انعامات کا اعلان کرنے والے حکمران کیا پاکستان میں کھیلوں کی ترقی کے لیے کام کریں گے یا پھر صرف اور صرف ان کی دلچسپی یہیں تک محدود رہے گی ۔ ایک ارشد ندیم کے بعد ملک کے طول و عرض میں پھیلے ٹیلنٹ کو سنبھالنا، سامنے لانا اور نکھارنا کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم اولمپک مقابلوں میں شریک نہیں ہے کیا کسی حکومت نے اس طرف توجہ دی اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف محدود وقت کے لیے سپورٹس لوور ہوتے ہیں۔ اگر کوئی خود کھیل جائے، جیت جائے، ملک کا نام روشن کرے، سبز ہلالی پرچم سربلند کرے حکمران عوامی جذبات سے کھیلتے ہوئے اس کے لیے انعامات کا اعلان کریں اور پھر کھیلوں کو بھول جائیں۔ رانا مشہود وزیراعظم میاں شہباز شریف کے ساتھ ہیں انہیں چاہیے کہ ملک کی خدمت کریں۔ بناوٹی چیزوں کے بجائے کھیل اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
بھارتی حکومت اور بالخصوص متعصب بھارتیوں کے ذہنوں پر پاکستان سوار ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو انہیں فورا پاکستان یاد آتا ہے، پاکستان پر الزام دھرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ تو اڑتے کبوتر کو بھی پاکستانی بنا کر قید کر لیتے ہیں۔ خود یہ متعصب بھارتی ہر وقت پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان دنوں تو بھارتیوں کو پاکستانی آموں سے بھی تکلیف ہو رہی ہے۔ وہ آم جو اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہیں بھارتیوں کو وہ آم بھی برے لگ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کتنے بدذائقہ ہیں یہ نریندرا مودی کو لیڈر ماننے والے، کم از کم توہین آم کے مرتکب نہ ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی نے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی ان کے ساتھیوں ،کپل سبل، ششی تھرور، محب اللہ ندوی، ضیا الرحمان، اقرا حسن اور افضل انصاری پر تنقید کرتے ہوئے ان پر پاکستانی ہائی کمیشن سے آموں کا تحفہ لینے کا الزام عائد کر دیا ہے۔ تعصب اور تنگ نظری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ کم ظرفی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر پاکستانی ہائی کمیشن نے کانگریس رہنماؤں کو آموں کا تحفہ دیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی ہے۔ سرحد پر بھی تو فوجیوں میں مٹھائی کا تبادلہ ہوتا ہے اس بارے مودی سرکار کی کیا رائے ہیں۔ ویسے راہول گاندھی سے نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو بڑا خطرہ ہے۔ آموں کے تحفے کا الزام لگاتے ہوئے بی جے پی رہنما گری راج سنگھ کا کہنا تھا راہول گاندھی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ انھیں اتر پردیش کے آم پسند نہیں، پاکستانی سفارت خانے نے اب راہول گاندھی کو آم بھیجے ہیں۔ ایک اور دل جلے انوراگ ٹھاکر کہتے ہیں راہول گاندھی کو آم اسی جگہ سے مل رہے ہیں جہاں ان کا دل ہے، راہول، یوپی کے آم پسند نہیں کرتے لیکن پاکستان کے آموں کو لے کر پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ اب کیا پتہ کہ بی جے پی کو پاکستانی آموں زیادہ برے لگتے ہیں یا راہول گاندھی اور ان کے ساتھی یا پھر کانگریس رہنماؤں اور پاکستانی آموں نے مل کر نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ یا بی جے پی کو بھی پاکستانی آم بہت پسند ہیں لیکن وہ "مفتا" لگانا چاہتے ہیں انہیں پاکستانی ہائی کمیشن نے لفٹ نہیں کروائی تو وہ کانگریس والوں کے آموں پر نظریں لگائیں بیٹھے ہیں۔
بھارت کو تو بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں بھی پاکستان نظر آتا ہے حالانکہ بھارت دہائیوں سے حسینہ واجد پر انویسٹمنٹ کر رہا تھا اور اپنی سرمایہ کاری تباہ ہوتے دیکھ کر بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا الزام عائد کر رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں کو نشانہ بنانا بھارت کی پرانی عادت ہے۔ بھارت کو حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کا دکھ بھی ہے اور لذیذ آموں کا تحفہ نہ ملنے کا دکھ رنج بھی ہے یوں وہ پاکستان پر الزام عائد کر کے غم غلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آخر میں مرزا غالب کا کلام
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مڑگاں کیے ہوئے
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرم  نالہ  ہائے  شرربار  ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صدہزار نمکداں کیے  ہوئے
پھر بھر رہا ہوں خام مڑگاں بہ خون دل
ساز چمن طرازی داماں  کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
پھر چاہتا ہوں نام  دل دار کھولنا
جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ  پہ پریشاں کیے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشن مڑگاں کیے ہوئے
اک نو بہار  ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر  بار  منت  درباں  کیے  ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں  تصور  جاناں  کیے  ہوئے
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے بیٹھے ہیں ہم  تہی طوفاں کیے ہوئے

ای پیپر دی نیشن