عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
قیام پاکستان میں ابھی تین روز باقی تھے کہ دنیا نے قائداعظم کو وہ تقریر کرتے سنا، بانی پاکستان کے سرکاری سوانح نگار ہیکٹر بولائتھو کے مطابق جس کی تیاری کیلئے محمد علی جناح بڑے انہماک کیساتھ رات دن کئی کئی گھنٹے ٹیبل کرسی سنبھالے کام کرتے رہے تھے۔ جس میں انہوں نے شہری مساوات پر مبنی جمہوری اور روادار پاکستانی معاشرے کے قیام کیلئے اپنا مقصد اعلٰی خوب بیان کیا۔
یہ 11 اگست 1947 کا دن تھا۔کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہو رہا تھا۔ پوری دنیا کی نظریں اور کان قائداعظم کی اسی تقریر کی طرف تھے۔ قائداعظم دو ٹوک الفاظ میں اعلان کررہے تھے کہ ان کے نوازائیدہ ملک پاکستان کی پالیسی کیا ہوگی۔ پاکستان کا نظام کیا ہوگا۔ غیر مسلموں کیساتھ ریاست پاکستان کا سلوک کیسا ہوگا۔ اور یہ کہ پاکستان میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق مساوانہ ہوں گے یا ان میں کوئی تفریق روا رکھی جائیگی۔ یہ تقریر اسمبلی کے تمام اراکین کے لیے ایک منزل کا تعین بھی تھا جس کے ممبران کی تعداد 69 تھی۔
قائداعظم نے اعلان کیا "آپ آزاد ہیں۔۔۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے یا کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے، اس مملکت پاکستان میں۔ آپ کا مذہب کیا ہے؟ ذات کیا ہے اس کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔اب میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہمیں اپنے آئیڈیل کے طور پر سامنے رکھنا چاہیے اورآپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں، کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔‘
یہ تقریر صرف لفظوں تک محدود نہیں تھی بلکہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون و انصاف ایک غیر مسلم کو بنایا۔ یہ تھے جوگندر ناتھ منڈل۔بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی دعوت ان ہی کو دی تھی۔جوگندر ناتھ منڈل کا تعلق بنگال کی ہندو دلت برادری سے تھا۔وہ 1930 کی دہائی سے مسلم لیگ کے ایک مضبوط اتحادی تھے۔ قائداعظم کو دیکھ کر نقل کرتے ہوئے جب انڈیا میں بھی قانون سازی کا عمل شروع ہوا تو وہاں پنڈت نہرو نے بھی اپنی کابینہ میں ایک غیر کانگریسی دلت رہنما ڈاکٹر امبیدکر کو انڈیا کا پہلا وزیرِ قانون نامزد کر دیا۔
قائداعظم کی وفات کے بعد آنے والے حکمران بانی پاکستان کی اس پالیسی سے اپنے قدم پیچھے ہٹا گئے۔ اقلیتوں کے ذہنوں میں خدشات پیدا ہوئے۔ ان ہی خدشات اور ناروا سلوک کا شکار جوگندر ناتھ منڈل بھی ہوئے جنہوں نے آٹھ اکتوبر 1950 کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ اور واپس انڈیا چلے گئے۔جہاں ساری عمر اپنے پاکستان کو یاد کرتے دکھ اورگمنامی میں گزاردی۔ اس کے بعد تقریبا 62 سال بعد ہم نے 11 اگست کو پاکستان میں اقلیتوں کا دن منانے کا فیصلہ کیا۔اس دن کو منانے کا آغاز 2009 میں اس وقت کے وزیر اعظم اور موجودہ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کیا۔اس دن کو منانے کا مقصد پاکستان میں 4 فیصد آبادی جو مختلف مذاہب پر عمل پیرا ہے ان کے حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق لوگوں میں شعور بیدار کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت سید یوسف رضا گیلانی نے یہ اہم قدم اٹھایا۔ 62 سال بعد ہی سہی لیکن یہ خیال کسی کو تو آیا۔اب ہر سال 11 اگست کو پاکستان میں اقلیتوں کا دن منایا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ صرف دن منا لینے سے غیر مسلموں کے مسائل ختم نہیں ہوں گے البتہ اس دن ہم غیر مسلموں کے حقوق پر بات کر سکتے ہیں۔یہ 4 فیصد غیر مسلم ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں لیکن جب بات ان کے حقوق کی آتی ہے تو شاید یہاں ہم سے کوتاہی ہوجاتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ صرف دن منا لینے سے غیر مسلموں کے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ البتہ اس دن ہم غیر مسلموں کے حقوق پر بات کر سکتے ہیں۔ یہ 4 فیصد غیر مسلم ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار بھی بخوبی نبھاتے ہیں۔ لیکن جب بات ان کے حقوق کی آتی ہے تو شاید یہاں ہم سے کوتاہی ہوجاتی ہے۔
اس وقت پنجاب میں مریم نواز کی کابینہ میں ایک وزارت سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے رمیش سنگھ اروڑہ کے پاس ہے۔ جو صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ اقلیتی امور کی وزارت کا قلمدان اقلیت کے نمائندے کے ہاتھ میں ہی ہے۔