اولمپیئن ارشد ندیم نے پیرس میں تاریخ رقم کر دی ہے، مشکلات اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود مسلسل محنت سے اس نے ثابت کیا ہے کہ مسلسل جدوجہد، ملک کا نام روشن کرنے او سبز ہلالی پرچم سربلند کرنے کا جذبہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ارشد ندیم نے اپنی دن رات محنت سے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے انہوں نے اولمپک مقابلوں میں جیولین تھرو کی تاریخ ہی بدل دی ہے۔ جیولین تھرو میں اولمپکس کی تاریخ کی سب سے بہترین تھرو کرنے والوں میں پہلے نمبر پر ارشد ندیم کا نام ایک عرصے تک اس کھیل میں آگے آنے والوں کے لیے تحریک کا باعث رہے گا۔ جیسے شعیب اختر دنیائے کرکٹ کی تاریخ کے تیز ترین فاسٹ باؤلر ہیں اسی طرح ارشد ندیم اولمپک مقابلوں میں سب سے بہترین جیولین تھرو کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ ارشد ندیم نے ملکی تاریخ میں پہلا انفرادی اولمپک گولڈ میڈل جیتا ہے۔ ارشد ندیم کی کامیابی سے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ملک بھر میں لوگوں نے جوش و خروش سے اس مقابلے کو دیکھا۔ ارشد ندیم کے لیے انعامات کا اعلان ہو رہا ہے۔ اس سفر میں ان کا ساتھ دینے والے کوچ سلمان اقبال بٹ اور ڈاکٹر علی شیر باجوہ کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ میاں چنوں کے ارشد ندیم نے ثابت کیا ہے کہ اس ملک کے نوجوانوں کو سرپرستی اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر نظام کو بہتر کیا جائے تو پاکستان کے باصلاحیت کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ارشد ندیم کو انعام ضرور دیں لیکن حکومتی شخصیات یاد رکھیں کہ ملک میں کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تاکہ کوئی نوجوانوں کا راستہ نہ روک سکے۔ پاکستان نے چالیس سال بعد اولمپک گولڈ میڈل اور انفرادی کھیلوں میں پہلا گولڈ میڈل جیتا ہے۔ ہمیں اس طویل انتظار سے بچنے کے لیے بہتر فیصلوں کی ضرورت ہے۔ کھیلوں کی تنظیموں، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا سب سے پہلے تو قومی کھیل ہاکی کو بہتر کرنے کے لیے کام کرنا پڑے گا۔