عرصہ دراز کے بعد ایک دوست کا ٹیلی فون سن کر خوشی ہوئی اور پرانی یادیں تازہ ہوئیں، حال و احوال کا تبادلہ ہوا تو پتہ چلا کہ وہ آجکل ایک اعلیٰ عہدے پر اسلام آباد میں ہیں، میں اپنے اس دوست کو بڑے عرصہ سے جانتا ہوں نہایت ایماندار اور خاندانی آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن بھی ہیں۔ پاکستان اور اس کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کا دکھ انہیں بھی ہر دم رہتا ہے جس ڈیپارٹمنٹ میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں اگر انہیں”دائی“ کا درجہ دیا جائے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ دائی سے پیٹ کبھی چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد آج کل وہ ملٹری آڈٹ کو دیکھ رہے ہیں، میں نے پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے بات چھیڑی اور دریافت کیا کہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ کس محکمے میں کتنی کرپشن ہے اگر چند الفاظ میں بیان کرنا پڑے تو کیا کہیں گے فوج اور سول اداروں کا موازنہ کریں؟ کہنے لگے کہ سول اداروں میں 80فیصد اور فوجی اداروں میں 20 فیصد کرپشن ہے مگر ریلوے میں 99.9فیصد کرپشن ہے ۔ میں نے انکی بات کو آگے نہیں بڑھایا اور مزید چند باتوں کے بعد ملاقات کے دوران تفصیلی تبادلہ خیال پر اتفاق کرتے ہوئے بات ختم کردی ۔ یہ بات کوئی اچھوتی نہیں بلکہ ہر پاکستانی جانتا ہے جس کاکسی نہ کسی ادارے سے واسطہ پڑتاہے اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ادارے اور عوام کرپشن جیسی برائی کو برائی سمجھتے ہی نہیں ،جس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہیں آتا اور ہاں اگر کوئی پھنس جائے تو کرپشن کی کمائی سے کچھ حصہ دیکر پھر آزاد ہو کر نئی جہد کے ساتھ کام میں جت جاتا ہے ۔ تقریباً ایک سال قبل میرے ایک جاننے والے کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا کسی محکمے کا عملہ اسے رشوت دینے پر مجبور کررہا تھا تو اس نے تنگ آکر رنگے ہاتھوں عملے کے اہلکار کو پکڑوا دیا پھر کیا تھا کہ انٹی کرپشن جسے اکثر ” آنٹی کرپشن “کہتے ہیں کو پیسے دیکر عملہ کے لوگ تو آزاد ہوگئے مگر میرا جاننے والا آج تک اس کی سزا بھگت رہا ہے ۔ جہاں کرپشن روکنے والے ادارے خود کرپشن میں پیش پیش ہوں جہاں حکمران طبقہ صدر سے لے کر وزیراعظم تک،وزیر مشیر،بیوروکریٹس اور چپڑاسی تک سب کے سب صبح اسی نیت سے گھر سے نکلتے ہوں کہ آج دیہاڑی کیسے لگانی ہے پولیس والا ناکے پر اس لیے ڈیوٹی دے رہا ہو کہ کسی آنے والے شکار کو پکڑ کر کس طرح اس سے پیسے بٹورنے ہیں، تھانے کا ایس ایچ اواپنے علاقے میں کسی شہری کے قتل ہونے پر غم ناک اور شرمندہ ہونے بجائے خوش ہوتا ہے کہ اس کیلئے کمائی کا ایک اور راستہ کھل گیاہے پرچہ کاٹنے کے لئے پیسے لئے جاتے ہیں قاتل کو تحفظ دینے کے پیسے لیے جاتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے بے گناہوں کو پرچے میں شامل کرکے انہیں بے گناہ لکھنے کے پیسے لیے جاتے ہیں کیونکہ ایف آئی آر اگر لکھی جاچکی ہو لیکن ضمنی میں بھی کسی بے گناہ کا نام درج کردیا جائے اور بعدازاں وہ بے گناہ بھی ثابت ہوجائے تب بھی وہ شریف آدمی عدالتوں میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتا ہے اس کالے قانون کا بھرپور فائدہ پولیس والے اٹھاتے ہیں ۔ تھانےدار یہ سب کیوں نہ کرے آخر وہ بھی تو لاکھوں روپے دیکر ایس ایچ او کے عہدہ پر فائز ہوا ہوتاہے اسے وہ بھی تو پورے کرنے ہوتے ہیں۔
کسٹمز اینڈ ایکسائز کے اہلکاروں کا حال بھی ملکی خزانے میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ اپنے بینک بیلنس میں اضافہ ہی ہوتا ہے اگر ایسے محکموں میں کوئی شریف آدمی اپنی حلال کی روزی پر گزارہ کرنا چاہے تو ایسے شخص کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان فٹ ہوتا ہے۔
آج ہر علاقہ ہر محلہ ہر ادارہ پستی کی اس گہری کھائی میں گر چکا ہے جہاں سے نکالنے کےلئے نہ تو موجودہ سیاسی نظام اور نہ ہی موجودہ حکمران اس قابل اور اہل ہیں کہ ملک کو اور عوام کو جو خود ظالم ہوچکے ہیں اس دلدل سے نکالا جاسکے۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے نظام کو بدلنے کےلئے آئینی راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا جو لوگ سمجھتے ہیں اور اسی آئینی راستے کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرنا جانتے ہیں وہ اس نظام کو بدلنے کےلئے ہرگز تیار نہیں اور نہ ہی انکی سوچ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ پاکستان بنانے کی ہے کیونکہ وہ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور عوام کی فلاح ، پڑھے لکھے باشعور لوگ قانون کی بالادستی اور کرپشن سے پاک معاشرہ ان کے مفاد میں نہیں اس لئے وہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی اس کو بدلنے کی سعی نہیں کرتے۔
عمران خان کو لوگ ایک مسیحا کی صورت میں دیکھتے ہیں وہ عوام کو امید کی آخری کرن نظر آتے ہیں اگر بھیڑیئے پھر سے متحد نہ ہو گئے اور کرپشن کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کو ہی نہ چھیننے میں کامیاب ہوجائیں جس طرح گزشتہ الیکشن میں ہوا عوام نے ووٹ کسی اور دیئے جیت کا اعلان کسی اور کا ہوا‘ ایسے میں کیا بددیانتی کاجواب بددیانتی سے ہی دینا ہوگا یاکوئی اور راستہ بھی ہے؟