”خواتین کے حقوق کے کیلئے قانون سازی؟“ کیا تحفظ مل سکا

 پاکستان کو آزاد ہوئے 65سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اس دوران بہت ساری حکومتیں آئیں اور گئیں قانون سازی بھی ہوئی ہر سیاسی جماعت نے اپنا منشور بنایا لیکن حکومت میں آنے کے بعد کسی سیاسی جماعت نے خوایتن کے حقوق کے لئے عملی طور پرشائد ہی کوئی قابل ذکر کام کیا ہو۔18ویں ترمیم کے بعدصوبوں کو قانون سازی کرنے کے معاملے میں اختیارات تو سونپ دیئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دیکھیں تو صوبائی سطح پر کہیں بھی خواتین کو تحفظ دینے کے حوالے سے خاص قانون سازی سامنے نہیں آئی۔موجودہ حکومت نے بعض اہم شعبوں اور وزارتوں میں خواتین کو اہم ترین ذمہ داریاں بھی سونپ رکھی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور فہمیدہ مرزا جیسی دیگر خواتین ہیں۔لیکن ایسی چند ایک خواتین کو وزارتوں کے قلمدان دینے سے کیا فرق پڑتا ہے،جب ملک کی عام خواتین کے مسائل میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ۔ پارلیمان سے تحفظ حقوق نسواں کا بل اگرچہ پاس ہو چکا ہے مگر اس سے خواتین کا معیارزندگی بہتر ہوا ہے نہ تشدد اور نا انصافی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو تشدد آمیز واقعات کے خلاف سزا کیلئے بنائے گئے قوانین سے ابھی کوئی نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ حکومت کی طرف سے بے شک ہر فورم پر خواتین کی نمائندگی کی بات کی گئی ہے مگر خواتین خود بھی قانون و انصاف کو عملی شکل دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں۔ عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ(2010) ،عورت مخالف رسم و رواج کے خاتمے کا قانون،عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی روک تھام کا قانون،نیشنل کمیشن آن دا سٹیٹس آف ویمن کو بااختیار بنانے کا قانون،قیدی عورتوں کی فلاح کا قانون جیسے اہم قوانین بھی پاس کئے گئے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ان قوانین کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سماجی سطح پر بھی لوگوں کے رویوں میں بہت کم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے ۔دنیا بھر میںخواتین کے تحفظ اور ترقی کےلئے نہ صرف مناسب قوانین بنائے جاتے ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔قانون سازی کرنا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جبکہ عمل درآمد اصل چیز ہوتی ہے جہاں ہماری حکومتیں اور دیگر متعلقہ ادارے ہمیشہ سے ہی ناکام نظر آتے ہیں۔موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کو ہے اس دوران خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے اور ان کو بااختیار بنانے کےلئے اس کی کیا کارکردگی رہی۔اس حوالے سے ہم نے سماجی کارکنوں اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی چند ایک خواتین سے بات چیت کی،جو نذر قارئین ہے۔ایم کیو ایم کی مرکزی رہنما خوش بخت شجاعت نے کہا کہ مجموعی طور پر خواتین کی پارلیمنٹ میں کارکردگی کی بات کی جائے تو انہوں نے مثالی کردار ادا کیا ہے ۔خواتین نے مردوں کی نسبت زیادہ قراردادیں پیش کیں زیادہ سوالات اٹھائے۔وفاقی حکومت نے پالیسی میکنگ ، اہم مشاورتی معاملات اور فیصلہ سازی میں خواتین کو شامل کر کے ثابت کیا کہ اس پارٹی کو خواتین کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد ہے اور شاید یہ بے نظیر بھٹو کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ خواتین کو اہم وزارتیں بھی سونپی گئیں اور ان سے باقاعدہ کام لیا گیا۔خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کےلئے اس دور میںجتنی قانون سازی کی گئی ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ تحریک انصاف کی رہنمامہناز رفیع نے کہا کہ صوبائی حکو مت (پنجاب حکومت)نے خواتین کے حقوق کےلئے زبانی خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ وفاقی حکومت نے کچھ بل پاس توکر دئیے لیکن ان بلوں کی عمل درآمدگی کے حوالے کارکردگی مایوس کن رہی ہے ۔پنجاب حکومت نے جوش میں آکر آٹھ مارچ کو خواتین کے لئے پیکج کا اعلان ضرور کیا لیکن وہ بھی جلد ہی ہوا ہو گیا۔تاہم این جی اوز کی کارکردگی خاصی تسلی بخش رہی ہے وہ مسلسل حکومت پر پریشر ڈالتی رہی ہیں تاکہ خواتین کے حقوق کےلئے قانون سازی عمل میں آسکے ۔ایوب خان کے دور میں” عائلی قوانین“ متعارف ہوئے ان میں بہتری کی جانی چاہیے تھی لیکن اس جانب توجہ ہی نہیں دی گئی۔سیاسی مفادات حاصل کرنے کےلئے نعرے بازی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ پچھلی حکومت کے شروع کئے ہوئے تمام منصوبوں کو اگلی حکومت روک دیتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ عوام کی بہبود کے منصوبے جاری رہنے چاہیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ہی خواتین کی بہبود کے لئے تسلی بخش کام کیا ہے۔ہماری حکومت نے وسیلہ حق/وسیلہ روزگار / بے نظیر انکم سپورٹ جیسے دیگر پروگرام شروع کئے ہیں ،ان سب کا مقصدخواتین کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی حکومت میںخواتین کو کسی شعبے میں اس طرح سے نمائندگی نہیں دی گئی جس طرح سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے دی ہے۔سپیکر ہو،وزیر خارجہ ہو یا دیگر شعبے ہوں ہرجگہ خواتین کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اوریہ چیز آئندہ آنے والی حکومتوں کےلئے بھی مثال ہے۔”حراسمنٹ ایٹ ورک پلیسز“ ایسا قانون نے ہے جس نے کام کرنے والی خواتین کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنایا ہے۔میں نے مختلف این جی اوز سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے متعارف ہونے کے بعد خواتین کی ورک پلیسز پر شکایات میں خاصی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔گھریلو تشدد کا بل ایک ایسا بل ہے جو دو مرتبہ پارلیمنٹ میں گیا لیکن پاس نہ ہو سکا۔18وہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس قانون سازی کرنے کے اختیارات منتقل ہو چکے ہیں یعنی اب ان کو اس چیز کاانتظارنہیں کرنا پڑے گا کہ وفاق کوئی قانون بنائے تو اسے لاگو کیا جائے۔سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی خواتین کے حوالے سے قانون سازی کرنے کےلئے منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔اسی طرح پنجاب حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے صوبے میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کےلئے منصوبہ بندی کرے۔اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو موجودہ حکومت نے خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کےلئے اور انہیں بااختیاربنانے کےلئے جتنے بھی کام کئے ہیں ان کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے کہیںنہیں ملتی۔سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ عورتوں کے تحفظ کے حوالے سے موجودہ حکومت نے 5سے زائد بل پاس کئے ہیں۔افسوس ”گھریلو تشدد“ کا بل پاس نہیں کیا گیا دو مرتبہ پارلیمنٹ میں بھی پیش ہوا اور اس بل کی حیثیت پھر سے صفر ہوگئی۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے سالانہ اعداد و شمار اکٹھے کرے لیکن افسوس یہ کام اس نے آج تک نہیں کیا۔یوں مقامی سطح پر مختلف این جی اوز کی جانب سے اکٹھے کئے جانے والے اعداد و شمار سے سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین پر تشدد کے واقعات میں اس برس کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے،حالانکہ خواتین کے حق میں چند اہم بل پاس ہونے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ خواتین پر تشدد میں کمی آئے گی۔گھوم پھر کر بات پھر وہی ہے کہ پاکستان میں قوانین کا عملی نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے اگر قوانین کے عملی نفاذ کا بندوبست ہی نہیں کرنا تو پھر نام نہاد قانون سازی کا ڈرامہ بھی کیوں رچانا؟۔موجودہ حکومت کامیابی سے پانچ سال کی مدت پوری کر رہی ہے لیکن مسائل کے حل میں ان کی کارکردگی زیادہ تسلی بخش نہیں رہی۔ان پانچ سالوں میں جنسی تشدد میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے دل دہلا دینے والے واقعات پیش آئے ہیں۔ کئی اہم کیسوں میں دیکھا گیا کہ پولیس اور عدلیہ نے بھی ظلم کرنے والوں کاساتھ دیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروںمیں ہی کرپشن ہوگی تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کےلئے نعرے بازی سب سے آسان ہتھکنڈا ہے جسے ہر کوئی آسانی سے استعمال کر لیتا ہے۔ضیاءالحق کے دور میں ایسے قوانین متعارف ہوئے جنہوں نے خواتین کو دوسرے درجے کاشہری بنا کر رکھ دیا۔اس کے بعد بھی جمہوری حکومتیں آئیں لیکن انہوں نے بھی خواتین کے حقوق کی اہمیت کو پس پشت ڈالے رکھا۔ہر شعبے میں مرد اور عورتوں کے درمیان جو صنفی امتیاز پایا جاتا ہے وہ ہر سال بڑھا ہی ہے اس میں کمی کےلئے اقدامات نہیں کی گئے۔جس معاشرے میں عورت اور مرد کے درمیان تفریق پائی جاتی ہو وہاں کیامساوات ہو گی۔لوکل گورنمنٹ کے جو ایکٹس آرہے ہیں اس میں خواتین کی 33%نمائندگی کو بھی ختم کیاجا رہا ہے۔بے نظیر بھٹوکی حکومت میں پولیس سٹیشن اور ویمن بینک ضرور بنا لیکن ان سے بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔اگر ہم اسمبلی میں بیٹھی خواتین کی کارکردگی پر بات کریں تو ان پانچ برسوں میں خواتین کے حوالے سے جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے اس میں پارلیمنٹیرین خواتین کی کارکردگی خاصی تسلی بخش نظر آتی ہے۔
سماجی کارکن بشریٰ خالق نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بلاشبہ خواتین کو بااختیار بنانے کےلئے چند ایک اہم قوانین متعارف کروائے ہیں جو کہ قابل تحسین اقدام ہے۔لیکن ان پانچ سالوں میں ہمیں پنجاب حکومت سے مایوسی کا سامنا ہی ہوا ہے اس برس ”ویمن ڈے“ پر انہوں نے خواتین کےلئے ایک پیکج کا اعلان کیا اس اعلان کے بعد خواتین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن افسوس کے اس سال کا اختتام ہونے کو ہے لیکن اس پیکج کے اعلان کا عملی نفاذ نظر نہیں آیا۔پنجاب حکومت کی زیادہ تر توجہ ترقیاتی کاموں پر رہی لیکن انسانی حقوق کی خدمت کو انہوں نے بالکل نظرانداز کر دیا۔جب عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں گے تو ترقیاتی کاموں کو کون سراہے گا۔لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خواتین نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں خوب جدوجہد کی اور جتنی بھی قوانین سازی ہوئی ہے یہ اسی جدوجہد کا ثمر ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی سیاسی مشیر ذکیہ شاہنواز نے کہا کہ خواتین کو بااختیاربنانا ہماری ترجیحات میں شامل تھا اور ہے اسی حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے 8مارچ کو ایک پیکج کا اعلان کیا تھا جس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ہم نے خواتین کا ملازمت کے ضمن میں پانچ فیصد کوٹہ کو بڑھا کر پندرہ فیصد کیا ہے۔اس کے علاوہ والد کے انتقال کے بعد ان کے ورثا ءکو پٹواریوں کے چکر لگانے کے عمل کی روک تھام کےلئے تمام تر نظام کمپیوٹرائزد کیاہے یعنی اب تمام تر تفصیلات کمپیوٹر پر موجود ملیں گی۔اس کے علاوہ گورنمنٹ کے ہر ادارے میں ایک ایک ڈے کیئر سنٹر بنانے کی منظوری دیدی گئی ہے اور اس پر کام بھی شروع ہو چکا ہے۔گھریلو تشدد کا بل تیار کر لیا گیا ہے جسے اسمبلی میں پیش کرنا باقی ہے۔وفاقی حکومت نے تیزاب پھینکے جانے کے واقعات کے خلاف جو ایکٹ بنایا ہے صوبائی حکومت اس کی روشنی میں قانون سازی کر رہی ہے اور تیزاب پھینکے جانے کے ایسے واقعات کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت لایا جا رہا ہے۔
فائنل

ای پیپر دی نیشن