مفادات کی حکمرانی میں دباﺅ کا تڑکا لگا کر جس طرح اپنی دھرتی کو بنجر بنانے اور عوام کو مستقل اندھیروں کی جانب دھکیلنے کی ٹھانی گئی ہے۔ یہ بس ہمارے ملک میں ہی ممکن ہے۔ پہلے اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کسی دباﺅ کو خاطر میں لائے بغیر پایہ¿ تکمیل کو پہنچایا جائے گا۔ اس مجوزہ منصوبے کے ممکنہ فوائد سے بھی قوم کو آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد بھی ڈی ایٹ کانفرنس کے موقع پر اسلام آباد آ کر پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لئے اسلام آباد والوں کو شیر بنے رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور اپنی مثال دے کر یقین بھی دلاتے ہیں کہ ہم خود ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوں تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر امریکی دباﺅ میں دھمکی کا عنصر شامل ہوتا ہے تو صدر زرداری کا شیڈول کے مطابق طے شدہ دورہ¿ ایران یکایک ملتوی ہو جاتا ہے اور محترم صدر پاکستان واپس آ کر ایران جانے کے بجائے برمنگھم کے ہسپتال میں پورے پروٹوکول کے ساتھ زیر علاج ملالہ یوسفزئی کے سر پر ہاتھ رکھے نظر آتے ہیں۔ محمود احمدی نژاد ہمارے صدر محترم کو بے شک جتنی مرضی ”شیر بن شیر“ کی تلقین کرتے رہیں مگر انہوں نے تو راز ہی دباﺅ کے مطابق حکمرانی کرنے کا پایا ہے اور ترقیوں کے زینے چڑھنے کے اس راز کی بدولت ہی پانچ سال تک حکمرانی کو برقرار رکھنے کا کریڈٹ اب ان کے کھاتے میں شامل ہوا ہی چاہتا ہے۔ بے شک ملک کی سلامتی داﺅ پر لگ جائے، چاہے عوام جان کنی تک جا پہنچیں اور بے شک بھوک، پیاس اور قحط و فاقہ مستی زندہ درگور کئے جانے والے عوام کا طرہ¿ امتیاز بن جائے مگر تابع فرمانی کے ساتھ ”سودا کاروں“ کا ہر دباﺅ قبول کرتے ہوئے اپنی حکمرانی کے پانچ سال پورے کرنے کی مثال ضرور قائم کرنی ہے۔ عالمی سوداکار کے دباﺅ نے ایران جاتے جاتے واپسی کا راستہ دکھا دیا اور اپنے حلیف دو بڑے سودا کاروں کے دباﺅ نے کالاباغ ڈیم کی فائل بند کرا دی۔
غضب خدا کا، سندھ اسمبلی میں دو روز تک لسانیت کو فروغ دیتے ہوئے کالاباغ ڈیم کے خلاف وہ دھماچوکڑی مچائی گئی کہ ملک کی بقاءو استحکام کے ادراک کا کہیں شائبہ تک نظر نہ آیا۔ پنجاب دشمنی کے فیشنی کلچر میں لاہور ہائیکورٹ اور پنجاب حکومت پر پھبتیاں کسنے اور تبرے کھینچنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ مخالفت کی دلیل کوئی نہیں مگر مخالفت کی ٹھانی ہے تو اس میں کوئی کوتاہی کیوں در آنے دی جائے۔ لٹھ لے کر پیچھے پڑے ہیں اور ہانکے جا رہے ہیں پنجابی ڈھگے کو۔ ایک قرارداد کالاباغ ڈیم کے خلاف تو دوسری قرارداد شہباز شریف کے خلاف جبکہ مخالفت میں ڈھونڈے سے نہ ملنے والے استدلال کی یہ حالت ہے کہ....ع
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے
اور ذرا ہمارا المیہ تو دیکھئے۔ جنہیں مجوزہ کالاباغ ڈیم کا حدود اربعہ محض پنجاب میں ہونے کے ناطے پنجاب دشمنی کے فیشنی کلچر میں گالیاں پڑ رہی ہیں، وہ خود بھی اس ڈیم کی تعمیر کے معاملہ میں مصلحتوں، مفاہمتوں کی سیاست میں الجھ کر منافقتوں کے لبادے کو اپنی ڈھال بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ نقصان محض پنجاب کا نہیں، پورے ملکِ خداداد کا ہو رہا ہے۔ مگر ملکی اور قومی سلامتی کی پرواہ کئے بغیر قومی ترقی کے ضامن کالاباغ ڈیم کی بے تکی مخالفت کی جا رہی ہے اور اس ”اسفندی“ فارمولے کی تشہیر سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا کہ پاکستان اور کالاباغ ڈیم میں سے ایک ہی قائم رہ سکتا ہے۔ تو پھر پنجاب کی گالی کھانے والے ”دیدہ ورو“، خود کو مفاہمتوں کے لبادے سے باہر نکال کر ذرا سوچ ہی لو کہ کالاباغ ڈیم مخالف عناصر کس کے ایجنڈے کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔ آپ ذرا یہ تو کھنگالئے کہ کیا سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی کالاباغ ڈیم مخالف قرارداد میں کالاباغ ڈیم کے ممکنہ نقصانات کے کوئی اعداد و شمار بھی پیش کئے گئے ہیں۔ جب مخالفت کے اس ایجنڈے میں دھماچوکڑی کے سوا کچھ بھی نہیں تو دھول اڑا کر حقائق کی تصویر پردے سے ہٹانے کی سازشوں میں مصروف عناصر کے ہاتھ جھٹکنا ضروری نہیں؟
ان سازشی عناصر کی کامیابی تو یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنا کر کوئی دوسرا ڈیم بھی نہیں بننے دیا چنانچہ توانائی کے سنگین بحران کے نتیجے میں ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور آنے والے لمحات میں قحط سالی کا عفریت منہ کھولے اور پنجے نکالے اس ملک خداداد اور اس کی دھرتی پر موجود انسانوں کو نوالہ بنا کر ہڑپ کرنے کے لئے بگٹٹ دوڑتا نظر آ رہا ہے۔ پھر حضور والا! دباﺅ ڈالنے والے یہ سازشی عناصر اس وطنِ عزیز کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کا ایجنڈہ رکھنے والوں کے نادیدہ عزائم کی تکمیل ہی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ پھر آپ کس مصلحت کشی کا شکار ہیں جناب۔ آپ بھ ذرا سوچئے۔ انہیں باور کرایا جائے کہ کالاباغ ڈیم نہ بننے سے سندھ کو 30 ارب اور سرحد کو 22 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے تو کیا سندھ اور خیبر پی کے کے مفادات کے تحفظات کی خاطر ان کے چہروں پر فکرمندی کے کوئی آثار نمایاں ہوں گے؟ اگر انہیں احساس دلایا جائے کہ کالاباغ ڈیم بننے سے پورے ملک کے عوام کو 70، 80 پیسے فی یونٹ کے نرخوں پر وافر بجلی دستیاب ہو گی اور خیبر پی کے اور سندھ کے عوام سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی محفوظ ہو جائیں گے تو کیا وہ کالاباغ ڈیم کے حق میں جلوس نکال کر سندھ اور خیبر پی کے اسمبلی میں تائیدی قراردادیں لے آئیں گے؟ وہ ہر دو صورتوں میں کالاباغ مخالف ایجنڈے ہی کو آگے بڑھاتے نظر آئیں گے تو اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ کالاباغ ڈیم کے نہیں، پاکستان کی ترقی اور استحکام کے مخالف ہیں۔ پھر ان کے بارے میں کیا کیا جائے جو ایسے سازشی عناصر کے دباﺅ میں آ کر مفاہمتوں کی چادر لپیٹے خود بھی انہیں تھپکی دیتے نظر آتے ہیں۔ جی حضور والا! اسا ہمارے ملک میں ہی ہو سکتا ہے کہ توانائی کے بحران نے ملک کا مستقبل ہی داﺅ پر لگا دیا ہے مگر ایک دباﺅ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی نوبت نہیں آنے دے رہا اور دوسرا دباﺅ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے دور کر رہا ہے۔ بھئی ملک کو تو سلامت رکھنا ہے ناں۔ پھر ایسے دباﺅ سے اقتدار کے ایوانوں کو محفوظ کرنے کا ہی کوئی تدبر کرنا پڑے گا اور یہ تدبر صرف عوام اختیار کر سکتے ہیں۔ سارے حالات اور سارے معاملات ان کے سامنے ہیں۔ وہ شیر بنیں اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود دباﺅ کے ماتوں کے سارے کس بل نکال دیں ورنہ تڑپیں، سسکیں اور ایک دوسرے کے دامن گیر ہوتے جیسے تیسے زندہ رہیں۔ کیونکہ یہ جینا تو ع
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
”عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا“
Dec 10, 2012