لاہور کے شیروں نے فیصل آباد کے بھیڑئیے پچھاڑ دیئے


لاہور میں بڑے بڑے سٹیڈیم قائم ہیں لیکن پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈا اور مورال ڈاﺅن کرنے کے لئے کوئی بھی ملک اپنی ٹیمیں یہاں بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ صرف سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کو جواز بنا کر آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) کے سابق انڈین سربراہ نے ورلڈ کپ کے بہت سے میچ بھی پاکستان سے چھین لئے اور معاوضہ میں اسے اتنی رقم دے دی کہ پی سی بی (پاکستان کرکٹ بورڈ) مزے سے لالی پاپ چوستا رہا، لیکن اب موجودہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ چودھری ذکااشرف نے کوششیں تو بہت کی ہیں کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ بحال ہو جائے اور جس طرح اتوار کے روز ٹی ٹونٹی کے فائنل میں لاہوریوں نے بہت عرصے کے بعد قذافی سٹیڈیم کو بھر دیا اور فائنل میچ میں دونوں ٹیموں کو بھرپور داد دی اور پی ٹی وی کی معرفت دنیا کو بہت اچھا پیغام دیا ہے کہ پاکستانی عوام معیاری کرکٹ دیکھنے کی کتنی تڑپ رکھتے ہیں، اتوار کا فائنل میچ لاہور لائنز اور فیصل آباد وولفز کے درمیان تھا۔ لاہور نے پہلے کھیلتے ہوئے 154 رنز بنائے اور 155 کا ہدف دیا۔ فیصل آباد کے لئے یہ ہدف کوئی مشکل نہیں تھا لیکن ابتدائی اوورز میں تیزی سے وکٹیں گرنے کی وجہ سے وہ ہدف تک نہ پہنچ سکے اور بیس اوور ختم ہونے پر صرف 121 رنز (آٹھ کھلاڑی آﺅٹ) بنا سکے۔
جس جوش وخروش کے ساتھ لاہوریوں اور باہر سے آنے والوں نے اکٹھے بیٹھ کر کرکٹ کے فائنل کو انجوائے کیا ہے اس کا سہرا فیصل بنک کے صدر نوید اے خان کے سر ہے جس نے آج سے آٹھ سال پہلے جب وہ امرو بنک میں تھے تو اس کام کو شروع کیا تھا اور قومی ٹیم کو ان مقابلوں سے بہت اچھے اچھے کھلاڑی ملے۔
دراصل اس نے ایک مستقل نرسری قائم کر دی، جس شعبے میں نئے خون اور کھلاڑی کی ضرورت ہو اس کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس وسیع انتخاب ہو اب میرٹ پر اگر کسی کا تقرر نہ ہو تو اس میں نوید اے خاں کا کیا قصور ہے۔ اپنے آئیڈئیے کی وضاحت کرتے ہوئے نوید خان نے بتایا بنکوں کا کام صرف یہ نہیں ہے کہ وہ منافع کمانے کے لئے رقوم کا لین دین کریں اور اپنی خدمات فروخت کریں۔ بدلتی ہوئی دنیا میں کوآپریٹ سیکٹر پر بہت سی معاشرتی اور سماجی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں گمنامی کی دنیا سے نکال کر جانے پہچانے لوگوں کی دنیا میں لانا اور ہزاروں لوگ غریب لوگوں کے روزگار میں اضافہ ہمارا مقصد ہے۔ پہلے یہ مقابلے صرف کراچی اور لاہور تک محدود تھے لیکن پھر فیصل آباد اور پنڈی کو بھی شامل کر لیا گیا جس کے نتائج بہت مثبت نکلے۔ اب ہمارا ارادہ ہے کہ چھوٹے شہروں میں اس کرکٹ ٹورنامنٹ کو لے کر جائیں۔
میچ کے مکمل حقوق پی ٹی وی کے پاس تھے جس کی وجہ سے اسے کروڑوں کی آمدنی ہوئی۔ 16 کیمروں کے ساتھ لائیو کوریج کی گئی لیکن کمنٹری کا معیار بہتر بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کرکٹ کی دنیا میں پہلے کیونکہ کوئی سپورٹس چینل نہیں تھا اس لئے میرٹ پر بہترین کمنٹیٹرز کا انتخاب کیا جاتا تھا، امید تو تھی کہ سپورٹس چینلز بننے کے بعد کمنٹری کا معیار بہتر ہو جائے گا لیکن پی ٹی وی کے ایم ڈی یوسف بیگ مرزا کی موجودگی میں بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے متعلقہ پروڈیوسر نے اپنے آپ کو صرف کیمروں تک محدود کر دیا ہے۔ چند نمونے ملاحظہ کریں۔ کوڑیوں کے مول وکٹیں گر رہی ہیں۔ مصباح کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ باﺅلر کو چاہئے کہ بال پیچھے نہیں آگے پھینکے۔
یہ ہمارے کیمرہ مین ہیں (کسی کا نام بتایا کسی کا نہیں بتایا) جس وقت فیصل آباد ٹیم کی ہار صاف نظر آ رہی تھی اس وقت کمنٹیٹر کہہ رہا تھا کہ پورا سٹیڈیم بہت ٹینس ہے جب کہ کیمرہ کسی جگہ بھی ٹینشن نہیں دکھا رہا تھا۔ مصباح کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی ہیں۔ اتنے میں کیمرے نے ایک گتے پر لکھا ہوا دکھایا ”مصباح اور چھکا۔ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ سٹیڈیم پر لگی سکرین پر مصباح نے یہ دیکھا تو غیرت کھائی اور ایک چھکا واقعی لگا دیا۔ یوسف کے بارے میں منفی ریمارکس دیئے گئے کہ وہ تو گیند کو ٹھیک طرح سے کھیل بھی نہیں سکتا جب کہ عین اس وقت اس نے دو رنز سکور کئے اور فیلڈنگ کرتے ہوئے ایک کیچ بھی لیا۔
عوام کے ساتھ تفریح کرنے میں گورنر پنجاب لطیف کھوسہ بھی شریک تھے۔ اختتام پر پی ٹی وی کی طرف سے محفل موسیقی کا اہتمام تھا جس میں حدیقہ کیانی نے اپنی طرف سے پہلا گانا ”میں کملی آن گایا جو مختلف گانوں کے بول لے کر بنایا گیا تھا۔ پی ٹی وی ایک فیملی چینل ہے اس لئے یہاں یہ سنسر شپ کا اچھا معیار ہونا ضروری ہے، اب حدیقہ کیانی کی دو لائنیں بہت قابل اعتراض تھیں۔ دوسری لائن کے بول ہیں.... میرا رانجھا ماہی مکہ.... اب ایک عاشق کو مسلمانوں کے مقدس ترین مقام سے تشبیہ والا بول پی ٹی وی کیسے نشر کر سکتا ہے؟ دوسرا گانا جاناں جاناں، پشتو میں تھا، کرکٹ کا مقابلہ تو لاہور اور فیصل آباد کے درمیان تھا۔ کیا اب سفارشی پروڈیوسر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ خوشی کے پنجابی گانے اور فنکار کون سے ہیں؟ لیکن انکے باوجود لاہوریوں نے بہت عرصہ بعد جی کھول کر کسی ایونٹ کو انجوائے کیا اور لاہور کی زندہ دلی کی واپسی کا عمل جاری رہنا چاہئے اور دوسرے بنک بھی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں کی سرپرستی کریں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...