پاکستان کے ایک کڑوڑ بیس لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور یہ دنیا بھر کے ممالک میں اسکول جانے سے محروم بچوں کی شرح میں دوسری بڑی تعداد ہے۔ یہ تعداد گریٹر لندن کی پوری آبادی سے زائد ہے۔ پاکستان کی آبادی کے تقریباً نصف مرد اور دو تہائی خواتین پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے باعث پاکستان دنیا میں بدترین شرح خواندگی رکھنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
اس ناخواندگی کے منفی نتائج پاکستان کی آنے والی نسلیں محسوس کرینگی۔ ذرا سوچیے کہ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کڑوڑ سے تجاوز کرگئی ہے اور اس آبادی کی نصف تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔ ایک بڑی اکثریت کو ثانوی اسکول کی تعلیم کا کوئی موقع میسر نہیں ہے اور ایک واضح اکثریت بنیادی ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہے تو کروڑوں کی تعداد میں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ پاکستان کو تعلیمی میدان میں انتہائی پریشان کن ایمرجنسی کا سامنا ہے۔
تعلیم سب کا حق ہے۔ لیکن لڑکیوں اور خواتین کے لیے یہ خصوصی طور پر ضروری ہے۔ ترقی کے باوجود پاکستان ، اقتصادی مواقع کی کمی، تعلیم اور صحت تک رسائی میں ناکامی اور سیاست اور فیصلہ سازی میں کم تر نمائندگی کے باعث اب بھی ورلڈ اکانومک فورم کی 'جینڈر گیپ' رپورٹ میں 135 ممالک میں سے 134 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان اپنی نصف آبادی کی صلاحیت اور ثمر آوری سے محروم ہے جس کے باعث ترقی کے عظیم تر مواقع سے استفادہ ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کیونکہ خواتین کی تعلیمی کامیابیوں کے اثرات نسلوں تک متحرک رہتے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم یافتہ کرنا نہ صرف صنفی مساوات میں بہتری ، بلکہ معاشی ترقی اور خاندانوں ، برادریوں اور اقوام کے صحت مندانہ ارتقاء کا ایک مضبوط طریقہ ہے۔ تمام تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ خواتین کی تعلیم میں سرمایہ کاری ، غربت کے خاتمے کے سب سے موثر طریقوں میں سے ایک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں برطانیہ تعلیم، خصوصاً خواتین کی تعلیم کے لیے ترجیحی بنیادوں پر عمل پیرا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران کچھ اہم پیش رفت تعلیم کو قابلِ رسائی بنانے کے لیے بھی کی گئی ہے۔ پچھلے دو سالوں کے دوران صرف پنجاب میں چار سے سولہ سال کی عمر کے دس لاکھ بچے اسکولوں میں داخل کیے گئے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 2009 سے اب تک برطانیہ نے لاکھوں طلباء کے لیے اسکول کی کتابیں مہیا کی، اور چار لاکھ سے زائد لڑکیوں کو اسکول جانے کے لیے ماہانہ بنیادوں پر مالی امداد فراہم کی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب وفاقی اور صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لیے زائد رقوم مختص کی جارہی ہیں ، اس رقم کا استعمال پہلے سے بہت مناسب ہورہا ہے اور زیادہ اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے جارہے ہیں۔ اساتذہ کی حاضری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ترقی ہورہی ہے لیکن تعلیمی ایمرجنسی کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ پاکستان اپنی موجودہ کوششوں کا مومنٹم برقرار رکھے گا۔ برطانیہ کی جانب سے مدد جاری رہے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے ہمیشہ کے لیے امداد پر انحصار کرنے سے نجات دلا سکتی ہے۔ برطانیہ کی جانب سے کیا جانے والا تعاون 2015 تک چالیس لاکھ اسکول جانے والے بچوں بشمول بیس لاکھ لڑکیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا؛ صرف صوبہ پنجاب میں مزید 45000 اساتذہ کی بھرتی اور تربیت کی جائے گی؛ اردو، حساب اور انگریزی جیسے بنیادی مضامین کے امتحانی نتائج میں بہتری آئے گی؛ اور حکومت اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر پاکستان میں نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جائے گا۔
پاکستان کے مستقبل میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے تعلیم اہم ترین عنصر ہے۔ تعلیم معیشت کی افزائش کرتی ہے، نقطہ نظر اور امکانات میں وسعت پیدا کرتی ہے، عوام کو طاقتور بناتی ہے اور پاکستانیوں کے لیے ایک درخشاں مستقبل پیش کرتی ہے۔ برطانوی حکومت پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں سب سے زیادہ تعلیم پر کررہی ہے۔ ہم پاکستان کے اربابِ اختیار کے ساتھ مل کر اس تعلیمی ایمرجنسی کے خاتمے کے لیے پْرعزم ہیں۔