محترم مجید نظامی صاحب نے ٹھیک کہا ہے کہ اگر علامہ اقبال نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ بنتا، ہم ہندوﺅں کے غلام ہوتے مگر پتہ نہیں ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہمارے حکمران بھارت جا کر ماتھا کیوں ٹیکنا چاہتے ہیں۔ میں مجید نظامی صاحب سے یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ ہمارے حکمران پاکستان میں رہتے ہی کہاں ہیں، اُن کے بیٹے، پوتے نواسے انگریزوں کے دیس میں گھر بنا چکے ہیں۔ مگر پاکستان میں تو لاکھوں مہاجر آئے تھے ان میں سے کئی لوگ وہ تھے جو پہلے تو کیمپوں میں پڑے رہے پھر یہاں اپنی بھارتی جائیداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کروایا نہ سنیما الاٹ کروا، نہ کوٹھیاں لیں نہ زرعی زمین، جو زیور پیسہ پاس تھا اس سے یہاں چھوٹا موٹا کاروبار کر لیا اور مکان کرائے پر لے لیا، اب وہ بہت ترقی کر چکے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ہم ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی جائیداد حاصل کرنے نہیں آئے تھے ہم نے خدا کے حکم پر قائداعظم کے فرمان پر پاکستان کو اپنایا ہے۔
مجھے اپنی چھوڑ ہوئی بستی والا گھر یاد ہے مگر میں نے ذکر کبھی نہیں کیا مگر اس بستی میں اس چھاﺅنی کی ایک سڑک اکثر ذہن میں لہراتی رہتی ہے۔ اس علاقے کا نام ”کمہار سٹی“ تھا وہ ہماری چھاﺅنی ڈکشائی سے بہت اترائی میں تھا وہاں ایک سٹیشن تھا جہاں کالکا شملہ ریلوے لائن کا سٹیشن تھا، ہماری خواتین ”ڈانڈی“ میں کمہاروں کے کندھوں پر چڑھائی پار کرتی تھیں مگر مجھے کمہار سٹی کا سٹیشن نہیں بلکہ وہ سڑک یاد رہتی ہے جو شملہ کو جاتی تھی۔ میرے بڑے بھائی آصف محمود لاہور کے اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے گرمیوں میں ہمارے ہاں اُن کے دوست آ جاتے تھے اس دن بھی بہت سے لوگ سڑک پر جمع ہو چکے تھے۔ کوئی فوجی کوئی سپاہی، کسی قسم کی سکیورٹی وہاں موجود نہیں تھی، کاریں گزر رہی تھیں کہ اتنے میں پچھلی سرنگ پر بیٹھے لڑکوں نے نعرہ لگایا۔
دو کاریں گزریں تیسری کار ہمارے گروہ کے قریب رک گئی، میرے بھائی نے نعرہ لگایا ”آفتاب سیاست“ جواباً لڑکوں نے پُرجوش نعرہ لگایا ”محمد علی جناح“ --- وہی ہستی بادامی سے رنگ کے کوٹ پتلون میں ملبوس مسکراتے ہوئے کار سے باہر آئے، ہم دو بہنوں کو اٹھا کر ان کے نزدیک کیا گیا ہم نے اُن کے گلے میں ہار ڈالا۔ مجھے قائداعظم کی مسکراہٹ اور لڑکوں سے ہاتھ ملانا ایک ایک نقش یاد ہے۔ کار کی پچھلی سیٹ پر محترمہ فاطمہ جناح بھی تھیں انہوں نے بادامی سے رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی، مسکرا رہی تھیں۔ نعروں کے شور میں کاریں آگے بڑھ گئیں شملہ کی طرف۔ بعد میں معلوم ہوتا رہا کہ قائداعظم وہاں اس دن بڑی اہم میٹنگ پر جا رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے تو کراچی میں دو بار آمنا سامنا ہوا مگر میری آنکھوں میں میرے ذہن میں قائداعظم کا نقش ابھی بھی محفوظ ہے۔ ہمارے گھر میں اس سڑک اور ہجوم کی تصویریں تھیں مگر وہ گھر یہاں نہیں آیا۔ یہاں ہم پاکستان میں ہیں اور ہمارے والدین نے ہمیں کہہ دیا تھا کہ اس گھر کی اس زندگی کو بھول جاﺅ کہ پاکستان اس صدی کا بڑا معجزہ ہے، ہماری زندگی میں اسلامی ملک بن گیا ہے، ہم اسلامی ملک میں رہیں گے اور پاکستان آ کر ہم نے بھول کر بھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا کہ ابا جی پاکستان آ کر ہر روز تہجد میں دو نوافل ادا کرتے تھے کہ انہوں نے زندگی میں اسلامی ملک میں رہائش اختیار کی اور انہیں اسلامی ملک کی مٹی نصیب ہو گی۔
سوچتی ہوں اگر ہزاروں مہاجر جو وہاں بہت کچھ لُٹا کر بلکہ اپنے پیاروں کی لاشوں تک کو برہنہ چھوڑ آئے تھے کیا یہاں آ کر اپنے گاﺅں، اپنے شہروں کے نام پر بستیاں بسانے لگتے تو پھر کیا بنتا۔ ہم مری کو شملہ کا نام دیتے، لاہور کو امرتسر کہنے لگتے، پنڈی کو جالندھر بنا لیتے، کوئٹہ کو دارجلنگ کا نام دیتے --- اور یہ جو تھل میں اکثر گاﺅں نمبروں کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں ان کو اپنے محلوں گلیوں کے نام سے پکارنے لگتے تو پھر ہم ذہنی طور پر بھارت میں رہتے پاکستان میں نہ ہوتے، ہم وہی ماتھے ٹیکتے رہتے ہمارے اندر پاکستان بننے ہی نہ پاتا اور پاکستان کو اپنے اندر بسا لینا بہت بڑی بات اور ہماری ضرورت ہے۔
پاکستان دل میں بسا لیجئے
پاکستان دل میں بسا لیجئے
Dec 10, 2013