کراچی (نوائے وقت رپورٹ + این این آئی + آن لائن) کراچی میں فائرنگ اور تشدد کے دیگر واقعات میں گذشتہ روز 12 افراد ہلاک، 7 سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ کراچی پولیس چیف شاہد حیات نے سیاسی جماعتوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ اپنے عسکری ونگز ختم کر کے مطلوب ملزموں کو پولیس کے حوالے کر دیں ورنہ ان کے ناموں کی فہرست جاری کر دی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق اورنگی ٹا¶ن کے علاقے میں نشان حیدر چوک کے قریب نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے مزمل حسین کو قتل کر دیا۔ دریں اثناءکھوکھرا پار میں دھوبی کی دکان پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دیں جس سے وہاں کھڑا دکان کا مالک ندیم دم توڑ گیا۔ لانڈھی کے علاقے مانسہرہ کالونی میں کچرے کے ڈھیر سے بچی کی نعش ملی، لیاقت آباد میں ڈاکخانے کے قریب مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص مظفر زیدی جاںبحق ہو گیا، گارڈن میں ایک شخص، ملیر پندرہ میں 2 افراد شدید زخمی ہو گئے۔ گلشن اقبال میں بلاک 9 سے 60 سالہ فضیلہ کی گلا کٹی نعش ملی، پاک کالونی کے علاقے جہان آباد میں مسلح افراد کی پرچون کی دکان پر فائرنگ سے وہاں کھڑا 25 سالہ محمد اقبال اور نعیم بلوچ اور ایک ڈیڑھ سالہ بچہ جاںبحق ہو گیا۔ فائرنگ سے دو خواتین سمیت 4 افراد شدید زخمی ہوئے۔ ناردرن بائی پاس پر 2 کپڑوں میں لپٹی 4 ٹکڑوں میں بٹی خاتون کی نعش برآمد ہوئی۔ پیرآباد کے علاقے میں بنارس پل پر موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے رکشہ ڈرائیور 25 سالہ بہرام خان کو قتل کر دیا۔ گلستان جوہر میں مسلح افراد نے پولیس اہلکار ظفر اقبال کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اورنگی ٹا¶ن کے علاقے گلشن بہار میں 45 سالہ محمود علی نیو کراچی کے علاقے گودھرا میں نامعلوم شخص کو قتل کر دیا گیا جہان آباد میں پولیس موبائل پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ ناظم آباد میں موٹر بائیک سوار بھتہ خوروں نے کاروں کے شوروم پر دستی بم پھیک دیا جس کے پھٹنے سے علاقہ لرز اٹھا، شوروم کو نقصان پہنچا۔ علاوہ ازیں لیاری میں چاولہ لین سے سی آئی ڈی پولیس نے گینگ وار کے 5 ملزم گرفتار کر لئے جو رینجرز کے ڈی ایس پی اور پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہیں۔ ملزموں کے قبضے سے اسلحہ 5 دستی بم برآمد کرلئے گئے جبکہ شہر کے مختلف حصوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران 15 جرائم پیشہ عناصر کو حراست میں لیا گیا۔کراچی پولیس چیف شاہد حیات نے سیاسی جماعتوں کو عسکری ونگ ختم کر کے ممطلوب ملزموں کو پولیس کے حوالے کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ورنہ ان کے ناموں کی فہرست جاری کر دی جائے گی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کراچی میں جرائم اور قتل و غارت گری 20 سال سے جاری ہے، مکمل ختم ہونے میں وقت لگے گا، ابھی تو صرف تین ماہ ہی گزرے ہیں۔ شاہد حیات کا کہنا تھا آپریشن کے دوران 160 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، پولیس کے لئے کوئی نو گو ایریا نہیں ہم عزیز آباد، لیاری اور سہراب گوٹھ سمیت مختلف علاقوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ آپریشن سے قبل بھتہ کے 608 کیس تھے جن میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔کراچی میں منشیات کا سب سے بڑا کاروبار ہے جسے ختم کر دیں گے۔ انہوں نے کہا آپریشن کے دوران کوئی سیاسی دباﺅ نہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ہم سے تعاون کریں اور ان میں موجود عسکری ونگ ختم کر کے ملزمان کو ہمارے حوالے کریں ورنہ ان کی فہرست شائع کر دی جائے گی۔ پولیس چیف کا کہنا تھا پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی جو جرائم کی سرپرستی میں ملوث ہیں تاہم چودھری اسلم اور ڈی ایس پی جاوید عباس پر الزامات سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ این این آئی کے مطابق کراچی پولیس چیف شاہد حیات نے اعتراف کیا ہے کہ ولی بابر کیس کراچی سے باہر منتقل کرنا کراچی پولیس کی ناکامی ہے۔ میڈیا بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کیس کی منتقلی کی ایک وجہ قتل مقدمے سے منسلک 2 مخبر، عینی شاہد اور وکیل کا قتل تھا جن کو تحفظ دینا ہمارا کام تھا جو ہم نہ کر سکے۔
کراچی / ٹارگٹ کلنگ