قوم کو اُردو اور انگریزی نے پریشان کر رکھا ہے: جسٹس جواد

اسلام آباد (صلاح الدین خان/ نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لئے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک تو قوم کو اردو اور انگریزی نے پریشان کر رکھا ہے، یہ معاملہ آربیٹریٹر یا ثالث کے ایشو پر ہوا، ہمیں چاہئے انگریزی نہ بھی آتی ہو مگر بولنی ضرور ہے، اب یہ ایک ٹرینڈ بن چکا ہے ایسی کنفیوژن سے بچنے کے لئے میں پاکستانی انگریزی زبان کے آئین کے ساتھ اردو آئین کی کتاب بھی ساتھ رکھتا ہوں، آئین میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے مقدمات کو سیاسی معاملہ کہہ کر عدالت ایشو سے علیحدہ ہو سکتی ہے یہی ہائی کورٹ نے کیا تھا، عدالت حکمت عملی کے تحت سیاسی مسائل کے تنازعات سے پہلو تہی کرتی رہتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایسے ایشوز آتے رہیں گے جن کا حل ہمیں اسی آئین سے نکالنا ہے، کسی مسئلے کا حل آسمان سے نہیں اترے گا، حدود کے کیس میں گواہ اور الزام ثابت کرنا ضروری ہے، اگر مقدمہ جھوٹ پر مبنی ہو تو عدالت گواہ یا مدعی کے خلاف آرڈر پاس کرتی ہے کہ وہ تاحیات کسی عدالت میں گواہی نہیں دے سکتا، اس کی گواہی معتبر نہیں، معاملے میں وزیراعظم کا جھوٹ ثابت نہیں ہو رہا خواہ مخواہ ’’ہوا‘‘ کھڑا کیا ہوا ہے، کیس تب بنے گا جب جھوٹ ثابت ہو گا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ کیس انسانی حقوق کا نہیں ہے، اہل اور نااہل کے بارے قوانین مختلف ہیں، آرٹیکل 62کی تعریف کو 63میں شامل نہیں کرسکتے یہ الگ الگ ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اگرساری دنیا جھوٹ بولے تو کیا عدالت بھی جھوٹ بولنا شروع کر دے؟

ای پیپر دی نیشن