”کسی کی خواہش پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتے“ : سپریم کورٹ، تینوں درخواستیں خارج

اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت + نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم کی نااہلی کی تینوں درخواستیں خارج کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ محض کسی کی خواہش پر وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ درخواستیں تحریک انصاف کے رہنما اسحاق خاکوانی، ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور انصاف لائرز فورم کے گوہر نواز سندھو نے دائر کی تھیں۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس ناصر الملک کے علاوہ جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس مشیر عالم شامل تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالتی بنچ نے درخواست گزار گوہر نواز سندھو سے استفسار کیا کہ وزیراعظم کی تقریر کا کون سا حصہ جھوٹ پر مبنی ہے، جس پر گوہر نواز سندھو نے کہا کہ وزیر اعظم نے ایوان میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ انہوں نے فوج کو ثالث نہیں بنایا حالانکہ آئی ایس پی آر نے وزیراعظم کے بیان کی تردید کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اہم عمارتوں کی حفاظت فوج کے حوالے تھی اس طرح آئین کے تحت فوج ملوث ہوگئی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے ایوان میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے حوالے سے بات کی تھی پھر درمیان میں وہ کہاں سے آگئے۔ گوہر نواز سندھو نے کہا کہ ”ہم نے فوج کو ثالث نہیں بنایا“ آئی ایس پی آر نے وزیراعظم کے اس بیان کی تردید کی۔ گوہر نواز سندھو نے موقف اختیار کیا کہ کوئی امیدوار آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترے تو اسے نااہل قرار دے دینا چاہیے، جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی غلط تشریح کر رہے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیاکہ کوئی امیدوار انتخابات کے وقت 62 اور 63 پر پورا اترتا ہو اور بعد میں پورا نہ اترے تو کیا کریں؟ گوہر نواز سندھو نے اس پر کہا کہ آرٹیکل 62 الیکشن سے قبل، 63 بعد میں لاگو ہوتا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آٹیکل 62 کو 63 کے ساتھ ملا کر نہیں پڑھ سکتے۔ اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کوئی موثر دلائل دیں کہ وزیراعظم غیر قانونی طور پر اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اس کیس میں تین رکنی بنچ نے چھ سوالات اٹھائے، جس میں سب سے اہم سوال ہے کہ کیا آرٹیکل 66 کے تحت پارلیمنٹ میں ارکان کو مکمل استثنیٰ ہے، پہلے اس مرحلے کو عبور کر نا ہے کہ کیا آرٹیکل 66، آرٹیکل 62 اور 63 کو اوور رائٹ کر سکتا ہے؟ محض آپ کی خواہش پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور چودھری نثار کے بیان اور آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ میں کوئی تضاد نہیں اور ثابت نہیں ہوتا کہ اسمبلی فلور پر وزیراعظم کی طرف سے جھوٹ بولا گیا۔ تمام درخواستیں سیاسی بنیاد پر وزیراعظم کے خلاف دائر کی گئی۔ ایک موقع پر درخواست گزار گوہر نواز نے کہا کہ یقین ہے کہ وزیراعظم نے اسمبلی فلور پر جھوٹ بولا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعظم کی جانب سے جھوٹ آپ کا یقین ہے یا اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ گوہر نواز نے کہا کہ وزیراعظم نے تقریر میں کہا کہ چودھری نثار کو فون آیا طاہرالقادری اور عمران خان آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے تقریر میں کہا کہ انہوں نے ملاقات کی اجازت دےدی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم یہ بات بھی چودھری نثار سے منسوب کر رہے تھے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انگریزی ہی تو ہمارے لئے عذاب بنی ہے، سوال یہ ہے کیا یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہونے کے باعث ہماری دسترس سے باہر تو نہیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ انتخابات کو متنازعہ نہیں بننا چاہئے۔ بعد ازاں عدالت نے ہونے والی تمام کارروائی کے بعد وزیراعظم کو نااہل قرار دینے سے متعلق دائر تمام درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرٹیکل 62 اور آرٹیکل 63 کی تشریح سے متعلق معاملہ چیف جسٹس کو ارسال کیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے درخواستوں کی سماعت کیلئے سات رکنی بینچ تشکیل دیا۔ بی بی سی کے مطابق درخواست گزار اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ ہاو¿س کے باہر دھرنا دینے والی جماعتوں، جن میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک شامل ہیں، کے ساتھ مذاکرات کے لیے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اپنا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ تاہم بعدازاں وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اجلاس میں جھوٹ بولا جس کی تصدیق پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے اپنے ایک پیغام میں کی تھی۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چونکہ وزیر اعظم نے جھوٹ بولا ہے اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے، لہٰذا عدالت ا±نہیں نااہل قرار دے۔ ا±نہوں نے کہا کہ میڈیا پر بھی یہ بیان شائع ہوا ہے جس پر بینچ میں موجود جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدالتیں میڈیا رپورٹوں پر نہیں بلکہ آئین اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں۔ ا±نہوں نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ا±ن کے پاس آرمی چیف کا کوئی بیان حلفی ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وزیر اعظم نے جھوٹ بولا ہے۔ بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں تقریر وزیر داخلہ چودھری نثار کی تقریر کے بعد کی جس میں ا±نہوں نے وزیر داخلہ کے موقف کی تائید کی، جس میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فوج کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے اور اس ضمن میں آرمی چیف سے مختلف معاملات پر مشاورت ہوتی رہی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس سارے معاملے میں وزیر اعظم کہاں سے آگئے؟ جس کا درخواست گزار کے وکیل کوئی جواب نہ دے سکے۔ عرفان قادر کا کہنا تھاکہ ماضی میں بھی عدالتیں ایسے مقدمات سنتی رہی ہیں اس لیے عدالت کو اس معاملے پر از خود نوٹس لینا چاہئے۔ جب عدالت نے درخواست گزاروں سے پوچھا کہ وزیر اعظم کے اس بیان سے ا±ن کے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں تو وہ عدالت میں ایسے کوئی شواہد پیش نہ کر سکے۔ عدالت نے ان تمام درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تحریک انصاف کے موقف کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کو بنیاد بناتے ہوئے ا±ن انتخابات کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواستوں کو بھی مسترد کر چکی ہے۔
نااہلی کیس

ای پیپر دی نیشن