خوشامد اور مالش

خوشامد بھی گویا مالش کا ہی دوسرا نام ہے۔ مالش بذریعہ الفاظ !جدید مشینی دور میں سارے جسم کی کلی یا جزوی مساج کیلئے ان گنت مشینیں ایجاد اور مستعمل ہوئی ہیں۔ سرسے لیکر پیر کی انگلی تک ہر ہر عضو بدن کے مکمل سکون و آرام کی خاطر ۔ ترکی کے تاریخی حماموں اور بنکاک ، دبئی کے جدید مساج ہائوسوں میں فراہم کی جانیوالی ہوش ربا خدمات میں ان مشینوں کا کتنا حصہ ہے یہ جاننے کیلئے تو جیب میں کثیر زرمبادلہ ہونا چاہیے مگر بازار میں بھی جو آلات میسر ہیں ان سب کا استعمال کچھ کم خرچ اور آسان نہیں ۔ البتہ مالش بذریعہ الفاظ یعنی خوشامد آج بھی سستی اور افورڈیبل ہے ۔ خوشامد کیلئے جس اوزار کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے قلم ۔ اکیلا قلم وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو دنیا جہان کی مشینیں اور آلات نہیں کر سکتے اور اگر لکھنے والا ہاتھ مشتاق ہو ذرا لکنت اور رعشہ کا عادی نہ ہو تو مزا دوبالا نہیں کئی بالا ہو جاتا ہے کیونکہ ۔ دغا وفا ، مجرم محرم ، مشیت معیشت ، اور اس طرح کے بے شمار متشابہات کی دلدل میں ذرا سی لغرش قلم سے نکلنے والی سیاہی کا رخ کسی جانب بھی موڑ سکتی ہے اس سے روز روشن میں قوس قزح کے رنگ بھی بکھر سکتے ہیں اور خود اپنا لکھنے والے کا چہرہ بھی کالا ہو سکتا ہے ۔ لفظ بے چارے کا کیا ہے لفظ تو مزدور ہے معافی ڈھوتا ہے حسب منشا تشبیہات استعارے کنائیے رمز کے بہروپ بدلتا ہے نہ معاوضہ طلب کرتا ہے نہ حکم عدولی کرتا ہے بس اتنا ہے کہ بعض لوگ اپنے ضمیر کی روشنی مدھم پڑنے پر اپنے ذاتی فراستی اندوہ کے الائو سلگا لیتے ہیں اور جوش میں آکر ایسے ایسے الفاظ جھونک دیتے ہیں کہ نہ صرف سننے پڑھنے والوں پر غیر موسمی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں بلکہ بے چاری ممتا کی ماری لغت بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے !
مالش اور خوشامد یوں بھی یکساں ہیں کہ کرنے اور کروانے والے دونوں خوش ہوتے ہیں ۔ مالش میں معاوضہ فوراً مل جاتا ہے مگر خوشامد میں ایسا نہیں ہوتا ۔ مگر اکثر گھاگ اور فن کے ماہر ایڈوانس کے بغیر یہ جو کھم نہیں اٹھاتے ۔ انہیں خوب علم ہوتا ہے کہ اس دشت کا سفر انتہائی خطرناک ہوتا ہے ۔ خوشامد کی چھان پھٹک باریکی سے ہوتی ہے ۔ اول تو آواز اور تحریر مطلوبہ کان یا آنکھ تک پہنچنے کے بعد ہی قسمت کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں چھپے مطالب یعنی تلوں کے اندر تیل کی مقدار کا تعین بھی ذرا سست عمل ہے ۔ بعض اوقات تو خوشامد کی چھٹی ہی غلط ایڈریس پر جا نکلتی ہے یا پہنچتے پہنچتے اتنی دیر ہو جا تی ہے کہ دوسرا فریق صفحہ ہستی سے ہی غائب ہوجاتا ہے یہاں صفحہ ہستی سے مراد وہ سند یا عہدہ ہے جس پر وہ بوقت خوشامد براجمان ہوتا ہے۔ بھلا نشانے سے ہٹا ہوا تیرکس کام کا۔ مالش کی طرح خوشامد کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ دیسی ولایتی ۔ مقامی صوبائی مرکزی ۔ لاہوری پشوری ۔ اسلام آبادی وغیرہ وغیرہ ۔ آج کل جو صنعت سب سے زیادہ مقبول اور ان ہے وہ ہے اسلام آبادی ! اس میں تیل کریم یا چکنائی یعنی چکنے چپڑے الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا ۔ بقول اساتذہ تیل کریم کی باس سے فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ صاحب نے مالش کروا رکھی ہے ۔ اب صرف اور صرف صوتی مالش کا رواج ہے صوتی مالش یعنی مساج بذریعہ آواز یا زبانی ۔ وہ مالش جو کانوں کے راستے داخل ہو اور دوسرے کان سے نکلنے سے پہلے سارے جسم کو سیراب کر دے ۔ یہ کھلے عام یعنی اجلاسوں میں بھی ہوتی ہے اور تنہائی میں بھی فرق صرف اتنا ہے کہ خلوت میں با آواز بلند ہوتی ہے مگر محفل میں محتاط انداز دھیمے لہجے میں ۔ ایک صاحب نے ملاقاتی کو بلایا عزت و احترام سے بٹھا کر چائے پیش کی ابھی بے چارے نے دوسری تیسری چسکی بھری تھی کہ اتنے میں اسٹنٹ آیا اور چپکے سے صاحب کے کان میں کچھ کہا ۔ جیسے شب رات کی پھلجھڑی کو چنگاری دکھا دی جائے کانا پھوسی نے تو بھانبڑ اٹھا دیا صاحب نے چنگھاڑ کر چپڑاسی کو آواز دی اور ملاقاتی کی طرف اشارہ کرکے کہا اس نابکار کو کرسی سمیت اٹھا کر باہر پھینک دو ! اس مثال میں مالش کی کون سے قسم موجود ہے ذرا ذہن پر زور دیجئے !
آپ روشن چراغ ہیں ہم آپکی کرنیں ! آپ آسمان ہیں ہم آپکے تارے ! آپ سایہ دار شجر ہیں ہم آپکے پتے کسی جلسے میں سیاسی نامہ پڑھتے ہو مقرر نے کہا ۔ نیچے سے آواز آئی آپ دیگ ہیں ہم آپکے چمچے ۔ یہ مثال سر عام مالش کی ہے محفل میں ہمیشہ اندیشہ گرہ لگ جانے کا ہی ہوتا ہے وگرنہ خوشامد یعنی الفاظ کے ذریعہ مالش کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہی ہے ۔ مشاعرے میں بعض اوقات اچھے شعر پر بھی ایسی کاٹ دار کراری گرہ لگ جاتی ہے کہ تاریخ کے صفحہ پر ہمیشہ کیلئے زریں نقش بن جاتا ہے ۔ مثلاً ایک مشاعرے میں شاعر نے مطلع عرض کیا …؎
اس زلف یہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
کسی من چلے نے گرہ لگا دی … ع
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
گو اب خوشامد سر عام کا رواج گھٹتا جا رہا ہے لیکن صوتی اور تحریری مالش نے بہت سی نئی راہیں نکال لی ہیں ۔ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے اس ضمن میں بے مثال ترقی کی ہے ۔ لفظ و معنی کے ساتھ پلے بیک میوزک ، ناز وادا میک اپ ، ایکشن ، تعریف کے ڈونگروں میں بھر بھر کے! بھلا اس سیلاب کے سامنے کون جری ٹھہر سکتا ہے! نسلوں کی پیٹر آن واحد میں ختم یا شروع ! بت شکنی ، بت فروشی اور بت تراشی سبھی کرتب ایک چھت کے نیچے پلک جھپکتے ہیں اور اس میں خرچ بھی کچھ نہیں آتا صرف زبان ہی تو گھستی ہے ذرا سی ! اور گھسنے سے تو تلوار تیز تیر ہوجاتی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن