اپنے وطن عزیز کی چندباتیں بہت عجیب ہیں۔ ان کے بارے میں صرف حیران ہی ہوا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر فوج اور سیاسی عمل دو انتہائی مختلف اور کئی حوالوں سے متضاد چیزیں ہیں۔ 1951ءکی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی مگر ہماری عسکری قیادت نے اپنے کاندھوں پر پاکستانی ریاست کو راہِ راست پر رکھنے کی ذمہ داری بھی لے ڈالی۔ کمانڈر اِن چیف کی وردی سمیت جنرل ایوب خان سیاستدانوں پر مشتمل کابینہ میں وزیر دفاع بن کر شامل ہوگئے۔ سوچا ہوگا کہ نظام کو ”اندر سے“ درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ یقینی بات ہے کہ اپنے مشن میں ناکام رہے۔ اسی لئے 1958ءمیں خود کو اس ملک کا صدر بھی بناڈالا۔
خود کو صدر بنالیا تو ارادہ باندھا کہ پاکستانی قوم کی نفسیاتی اور ثقافتی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمہوری نظام کا ایک نیا ماڈل متعارف کروایا جائے۔ اس ماڈل کی ساخت کے لئے ”بنیادی جمہوریت“ سے کل پرزے ڈھونڈنا شروع ہوگئے۔ پورے دس سال کی محنت، سوچ بچار اور مکمل اختیارات کے استعمال کے باوجود اسی ایوب خان کو بلوانا پڑی بالآخر فروری 1969ءمیں ایک گول میز کانفرنس۔ اس کانفرنس میں ”عطار کے لونڈے“ انہی سیاستدانوں سے وہ یہ پوچھتے پائے گئے کہ اب کیا کریں۔
بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے انتخاب کے ذریعے پارلیمانی نظام کی بحالی اس کانفرنس میں ان کا اولین وعدہ تھا۔ اس وعدے کو پورا کرنے کا ذمہ لیکن ان ہی کے لگائے کمانڈر اِن چیف جنرل یحییٰ نے اپنے سر لے لیا۔ انتخابات انہوں نے ضرور کروائے مگر ان کے نتائج کو عملی صورت نہ دے سکنے کی وجہ سے پاکستان کو دولخت کروابیٹھے۔
ان کے بعد آئے ضیاءالحق۔ پورے دس برس تک وہ بھی پاکستانی قوم کی نفسیاتی اور ثقافتی ضرورتوں سے کہیں بڑھ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کوئی جمہوری ماڈل ایجاد کرنے میں مصروف رہے۔ 17اگست 1988ءکے روز طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد مگر ہم دوبارہ پارلیمانی نظام کی طرف لوٹ گئے۔
اس نظام سے تنگ آکر ایک بار پھر ایک اور جنرل-پرویز مشرف- کو جمہوریت کا ”جعلی نہیں بلکہ حقیقی“ ماڈل دریافت کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بنیادی جمہوریت کے بجائے انہوں نے اصطلاح Grass-Rootsوالی پسند فرمائی اور اپنی ریپبلک کی تعمیر کے لئے ڈھونڈا انہوں نے جنرل (ر) نقوی کی صورت ایک اُستاد۔ فلاسفر افلاطون۔
نقوی صاحب گھنٹوں اپنے دفتر میں بیٹھ کر Grass-Roots Democracyکے منصوبے بنایا کرتے تھے۔ ان کو جانے کیوں شبہ ہوگیا کہ میرے اندر بھی کوئی افلاطون چھپا بیٹھا ہے۔ ایک روز اچانک ان سے ملنے کا وقت طے ہوگیا اور میں بہت نیاز مندانہ جذبات کے ساتھ وقتِ مقررہ پر ان کے دفتر حاضر ہوگیا۔ ان کے پرسنل سٹاف نے مگر اطلاع یہ دی کہ ملاقات کے لئے مجھے انتظار کرنا ہوگا۔
جنرل نقوی صاحب کے دفتر کے باہر سُرخ بلب جل رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ جب یہ بلب جل رہا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نقوی صاحب کو سوچ بچار کے لئے خلوت درکار ہے۔ کسی زمانے میں فلاسفر سوچ بچار کے لئے تنہائی کی ضرورت محسوس کرتے تو پہاڑوں پر چلے جاتے یا ساحلوں کے اداس اور تنہا ترین مقامات کا رُخ کرتے۔ Digital Ageنے شاید نقوی صاحب جیسے مفکروں کے لئے بھی آسانیاں پیدا کردی تھیں۔ اپنے دفتر میں آﺅ۔ سُرخ بلب کا بٹن دباﺅ اور نئے خیالات سوچنا شروع ہوجاﺅ۔
بہرحال سُرخ بلب جلاکر حاصل کی ہوئی تنہائی کے تخلیقی ماحول میں نقوی صاحب نے جو بلدیاتی نظام متعارف کروایا اس کے بڑے چرچے رہے۔ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادارے بھی اس نظام کو مضبوط تر بنانے میں مصروف رہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ پاکستان میں کبھی محقق بھی پیدا ہونا شروع ہوجائیں۔ ان میں سے کوئی ایک تھوڑی سی محنت کے بعد بس اتنا بتادے کہ نقوی صاحب کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام کے ذریعے پاکستان میں ”جعلی نہیں حقیقی جمہوریت“ کے قیام کے لئے عالمی اداروں سے آئے Consultantsوغیرہ پر کتنے ڈالر خرچ ہوئے تھے اور پھر وہ اضافی خرچے جو ان لوگوں کی رچائی تربیتی ورکشاپس وغیرہ کی نذر ہوئے۔
میرا سوال ان دنوں مگر ایک ہی رہا اور وہ یہ کہ نقوی صاحب اور ان کی مدد کو ہمہ وقت موجود غیر ملکی ماہرین کی ایک کثیر تعداد کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ”جعلی نہیں حقیقی“ جمہوریت کے نام پر جو بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا تھا اس سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو محروم کیوں رکھا گیا۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد ،کوئٹہ اور پشاور وغیرہ کے مقابلے میں اسلام آباد اب بھی ایک چھوٹا شہر ہے۔ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب بھی دیگر شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس شہر میں Grass-Roots Democracyکا ایک توانا ماڈل ثابت ہونے کے تمام تر امکانات موجود تھے۔ ان امکانات کو ضائع کیوں کردیا گیا؟ مجھے اس سوال کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا۔
اسلام آباد میں ایک علاقہ ہے ”چک شہزاد“۔ جنرل مشرف کے زمانے تک اسے ”دیہی“ شمار کیا جاتا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں ایک صاحب ہوتے تھے جمیل نشتر وہ سردار عبدالربّ نشتر کے صاحبزادے تھے۔ اسلام آباد کے سرکاری اور ورلڈ بینک وغیرہ کے چہیتے ماہرینِ معاشیات نے ہمیشہ اصرار کیا کہ مرحوم ایک بہت ذہین فرد تھے۔ زرعی ترقیاتی بینک کا سربراہ بناکر ان کی ذہانت سے پاکستانی ریاست نے خلقِ خدا کی بہتر ی کے کچھ منصوبے عمل پیرا ہوتے دیکھنا چاہے۔
پاکستانی زراعت میں جمیل نشتر مرحوم کیا انقلاب لے کر آئے مجھے اس کے بارے میں قطعی کوئی علم نہیں۔ اسلام آباد کے بارے میں ان کے دور رس ذہن نے مگر درست طورپر سوچا کہ اس شہر کی آبادی تیزی سے بڑھے گی۔ بے تحاشہ پھیلتی اس آبادی کو پھر ضرورت ہوگی سبزیوں، انڈوں اور مرغی وغیرہ کے گوشت کی۔ یہ ضروریات نظر میں رکھتے ہوئے جمیل نشتر مرحوم نے حکومت کوقائل کیا کہ اسلام آباد میں سب سے زرخیز زمین راول ڈیم کے نکاس کی طرف موجود چک شہزاد کی ہے۔ یہاں 20,10اور 50کینال کے رقبے بناکر انہیں سستے داموں لوگوں کو فروخت کردیا جائے مگر کڑی شرائط کے ساتھ۔ قوائط وضوابط کے مطابق چک شہزاد میں خریدے رقبوں کو صرف سبزیاں وغیرہ اُگانے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ضیاءالحق کے دور سے مشرف کے زمانے تک یہ رقبے بکتے چلے گئے۔ خریدنے والے مگر وہ لوگ ہرگز نہیں تھے جن کا تعلق کسی بھی حوالے سے سبزیوں کی کاشت سے رہا ہو۔ جنرل مشرف اور ان کے بینکر وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی یہاں رقبے خرید لئے۔ سبزیاں تو اسلام آباد کے شہریوں کو اس سیکٹر سے نصیب نہ ہوئیں۔ فارم ہاﺅسز کے نام پر چک شہزاد میں اشرافیہ کے محلات ضرور بن گئے جہاں رات گئے تک پارٹی سین چل رہے ہوتے ہیں اور وہاں مدعو افراد کی اکثریت ہمارے ٹی وی اینکروں کی طرح ملک میں کرپشن کے مسلسل پھیلاﺅ پر ماتم کناں رہتی ہے۔
اسلام آباد میں اب تاریخ میں پہلی بار جو بلدیاتی انتخاب ہوا ہے اس کے نتائج نے مجھے قائل کردیا ہے کہ جلد ہی اس شہر میں کئی اور چک شہزاد بھی ایجاد ہوجائیں۔ اس کے بعد لینڈ مافیاز ہوں گے اور ان کے مابین برپا قبضے کی جنگیں۔ ہم بے بس شہری اپنے گھروں میں دبکے ٹی وی پر کرپشن کے خلاف برپا سیاپوں کے ذریعے ہی کچھ تسلی محسوس کرتے پائے جائیں گے۔