پرتھ (بی بی سی) آسٹریلیا کے سابق وزیرِاعظم ٹونی ایبٹ کی اس ہرزہ سرائی نے اس تنقید کا طوفان چھیڑ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام میں بڑے پیمانے پر مسائل ہیں اور اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹونی ایبٹ نے کہا تھا کہ ’تمام تہذیبیں ایک سی نہیں ہیں‘ اور مغرب کو اپنے اقدار کے تحفظ پر معذرت کرنا بند کر دینی چاہئے۔ آسٹریلیا کے حزبِ اختلاف کے رہنما بل شارٹن کا کہنا تھا کہ یہ بیان بے سود ہے۔ ملک کے موجودہ وزیرِاعظم میکلم ٹرن بل کا کہنا ہے کہ خود مسلمانوں کی اکثریت شدت پسندی سے باعث خوفزدہ ہے۔ پرتھ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرن بل نے کہا کہ ’یہ یقین دہانی کروانا ضروری ہے کہ ہم وہ غلطی نہیں کریں گے جو یہ دہشت گرد ہم سے کروانا چاہتے ہیں۔ چند لوگوں کے کئے کی سزا ہم ہر مسلمان کو نہیں دے سکتے۔‘ ’یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے کہ عالم اسلام میں شدت پسند عناصر موجود ہیں اس کے باوجود اس مذہب میں جمہوریت اور آزاد معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی گنجائش موجود ہے۔‘ شدت پسند تنظیموں کے زیادہ تر متاثرین خود مسلمان ہی ہیں۔ شدت پسندی پر ان کے بیانات ہمیشہ محتاط ہوتے ہیں جن سے آسٹریلیا محفوظ رہے۔ ٹونی ایبٹ اور ان کی پارٹی کو غیر مقبول ہونے پر ستمبر میں عہدے سے ہٹا دیا تھا اور اب وہ محض ایک رکن پارلیمان ہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل انھوں نے کیتھولک پادری کی تربیت لی تھی۔
ہرزہ سرائی
”اسلام کو اصلاح کی ضرورت ہے“ سابق آسٹریلوی وزیراعظم کی ہرزہ سرائی پر شدید تنقید
Dec 10, 2015