گذشتہ دنوں امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر خصوصی برائے خارجہ امور جناب سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت کیلئے سہولتیں اور راستہ دینے کیلئے اب بھی تیار ہے ۔ اسی خواہش کا اظہار اور اسی بات کا مطالبہ بھارت گذشتہ چھ دہائیوں سے کررہا ہے ۔ اس کے باوجوداب بھارتی اور افغانی صدورمل کر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کررہے ہیں ۔بھارت روزانہ ہمارے علاقوں پر ،فوجیوں پر اور نہتے ومعصوم شہریوں پرگولہ باری کررہا ہے حتیٰ کہ عورتوں وبچوں کی بسیں اور ایمبولینس بھی اسکی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں ۔
اسکے علاوہ نریندر مودی روزانہ پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے کبھی وہ ہمارا پانی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے کبھی دنیا میں تنہا کردینے کی سازشیں کررہا ہے اور کبھی ہمارے پورے ملک کو ختم کرنے کی ہرزہ سرائی کررہا ہے مگر نجانے ہم کن مصلحتوں، منافقتوں اور ذاتی دوستیوں کی آس میں ہر چیز نظر انداز کئے بیٹھے ہیں حتیٰ کہ اپنے پروگرامز تبدیل کرکے صرف نریندر مودی کے پکوان کھانے کیلئے ایک دن پہلے ہی امرتسر چلے جاتے ہیں ۔اتنی چاپلوسی اور خوشامدی رویئے کے بعد بھارت میں سرتاج عزیز کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب سے سامنے ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس سلوک کے حقدار بھی تھے کیونکہ جو قومیں بے حسی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتی ہیں ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ان کا پریس کانفرنس کرکے آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں اصولاً تو ان کو کانفرنس میں ہی شدید احتجاج کرنا چاہیے تھا اور ان کو تجارت کے نام پر تخریبی سرگرمیاں بڑھانے کیلئے اپنے وسائل مہیا کرنے کی پیشکشیں نہیں کرنی چاہیے تھیں لیکن نجانے ہم اپنے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعت مسلم لیگ اقتدار سنبھالتے ہی بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے کیلئے اتنی بے چین کیوںہوگئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ساڑھے تین سال کی یہ حکومت اگر سب سے ذیادہ کسی مسئلے پر سوچ بچار میں مصروف رہی ہے تو وہ پاک بھارت تعلقات ہی ہےں۔ بنیادی طور پر کسی بھی قوم یا ملک سے تعلق رکھنے میں اور تجارت کرنے میںکوئی برائی نہیں ہے مگر یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہے ۔
بقول ہمارے بھارت نواز دانشور اور مخصوص تاجروں کہ اگر ہم یہودیوں اور عیسائیوں سے تجارت کرسکتے ہیں تو اپنے پڑوسی ہندو ﺅں سے کیوں نہیں کرسکتے ؟تو جناب آج69سال کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات میں بنیادی کمی اعتماد اور اعتبارکی ہے اوراگر اعتبار اور اعتماد میاں بیوی کے رشتے میں بھی نہ ہوتو یہ رشتہ ذیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتاکجا کہ دو قوموں کا تعلق بغیر اعتبار اور اعتماد کے قائم رہ سکے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ قوموں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے مثلاً آج وینزویلا امریکی صدر کو شیطان کے نام سے کیوں پکارتاہے ؟
آ ج چین اور تائیوان کے تعلقات میں اعتماد کیوں نہیں ہے؟ امریکہ ایران پر آئے دن پابندی لگانے میں کیوں مصروف ہے ؟اور دوسرے ملکوں کو بھی اس سے تجارتی تعلقات نہ رکھنے پر مجبور کررہا ہے جیسا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط ہونے کے باوجود صرف امریکہ بہادر کی خواہش کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہورہا ہے ۔ اس قسم کی مثالیں میں پیش کرتا جاﺅں تو میرے سامنے سیکڑوں مثالیں پڑی ہیں اور ان ہی وجوہات پرہمیں پاک بھارت تعلقات چاہے تجارتی ہوں ،سفارتی ہوں یا دیگر تعلقات ہوں ان پر تفصیلی جائزہ لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ بھارت تو تجارت کے بہانے پاکستان میں اپنی ان تخریبی سرگرمیوں کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے جو وہ پاکستان کے اندرونی علاقوں خصوصاً بلوچستان کے علاقوں میں کررہا ہے جس کا اظہار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میںبھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو اس کے ثبوت دیتے ہوئے کیا تھا ۔ جس کا اعادہ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزارت داخلہ کے ترجمان کرتے رہے ہیں۔
اسکے علاوہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،موجودہ وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی بلوچستان کی صورتحال اور حالات میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے حقائق بتاتے رہے ہیں ۔اسکے ساتھ ساتھ گذشتہ پانچ سال میں ہونےوالے معاہدوں اور کوششوں کے نتیجے میں کوئی معاشی ماہر اعدادوشمار کے حوالے سے ہمیں بتائے کہ ان پانچ سالوں کی یکطرفہ کوششوں کے باوجود پاکستان کی برآمدات کس مقدار میں بڑھی ہیں۔ گذشتہ چھ سال سے ایک پاک انڈیا چیمبر آف کامرس بنا ہوا ہے مگر آج تک اس کا صرف ایک ہی کنونشن ہوا ہے جس میں بھارت کے کسی بڑے تاجر ، صنعتکاریا فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس (FICCI) کے صدر یا نائب ©صدر نے بھی آنا گوراہ نہ کیا۔ فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس (FICCI) کی 2009-2010کی 120صفحات کی سالانہ رپورٹ جوانہوں نے اپنی حکومت کوسفارشات کی صورت میں دی تھی اسکے صفحہ نمبر 55سے صفحہ نمبر 60تک پانچ صفحوں میں پاکستان کو ختم کرنے کے جو طریقے بتائے گئے ہیں کاش ہمارے وہ بھارت نواز افراد اور بھارت کی وکالت کرنیوالے دانشوراور تاجر وصنعتکار اس پر بھی غور فرمالیں۔ ان بنیادی حقیقتوں کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستانی تنگ نظر یا تعصب پسند ہیں توسوائے انکی عقلوں پرافسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ بھارت سے محبت کے شوق میں پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ جس بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے،جو عالمی بینک کی ثالثی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے درپے ہیں ان کو نیک نیت کیسے جان سکتے ہیں، کشمیر پر1948کی اقوام متحدہ کی پاس کی ہوئی قراردادوں کا منہ چڑارہا ہے تو اس کو دیانتدار کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ بھارت معاہدوں کی پاسداری کرے گا تو اس کا تو ہندو فلسفہ میں وجود ہی نہیں ہے اس لئے بھارت سے تجارت میں بہت احتیاط اور دانشمندی کی ضرورت ہے ۔