"انگوراڈہ"

Dec 10, 2016

سلیمان کھوکھر-----چہرے

"نشان حیدر" جو پاکستانی فوج کے کسی بھی جوان یا افسر کا اعلی ترین اعزاز ہوتا ہے۔اس خاندان میں ایک نہیں دوہیں۔ایک عزیز بھٹی شہید کا اور ایک میجرشبیرشریف شہید کا۔یہ اعزاز بعدا ز مرگ اس فوجی کو عطا کیا جاتا ہے جو مادر وطن پر اس کی ایک انچ زمین بھی بچانے کیلئے فدا ہوجاتا ہے ۔1965ءکی جنگ میں جب میجر عزیز بھٹی کو یہ اعزاز ملا تو پہلی بار اس کی دھومیں مچیں۔ترانے گائے گئے۔جلسے منعقد کئے گئے ۔تعلیمی اداروں میں "بزم ادب" کا سب سے مقبول عنوان بنا۔فلمیں بنیں۔ڈرامے تخلیق کئے گئے۔ مائیے لکھے گئے۔رزمیہ شاعری کو ایک نیا چلن ملا۔ شاہراہوں اور چوکوں کے نام بدل کر"عزیز بھٹی شہید"پر رکھ دیئے ۔قوم نے سرآنکھوں پر بٹھایا۔گھر گھر شہید کی تصویروں سے سج گئے۔کئی لوگوں نے محبت میں انکے ہیئر سٹائل تک کو اپنالیا۔حقیقتاوہ کسی یونانی ڈرامے کا افسانوی کردار بن گئے۔یہ سب قدرومنزلت عزت افزائی اور محبتیں انکے نصیب میں لکھ دی گئی تھیں۔ اسکے بعد قوم کو معلوم ہواکہ قبل ازیں بھی یہ اعزاز کیپٹن سرور شہید اور میجر طفیل شہید کو بھی عطا ہوچکا ہے۔گوجرخاں کے ڈگری کالج کو بھی سرور شہید گورنمنٹ کالج کا مقدس نام دیا گیاملک میں کئی ایک شاہراہیں میجر طفیل کیپٹن سرور اور عزیز بھٹی ایسے شہدائے وطن کے نام سے منسوب ہوکر بجائے خود محبتوں کا درجہ حاصل کرگئیں۔ملک حامد سرفراز جو 1970ءکے انتخابات میں مغربی پاکستان سے عوامی لیگ کے واحد امیدوار تھے اور بعد میں تحریک استقلال کے صدر بھی منتخب ہوئے ۔بتایا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں بھی کئی ایک ہسپتال ۔کالج۔ شاہراہیں یہاں تک کہ کئی ریسٹورنٹس بھی ان شہداءکے نام سے منسوب تھے۔1965ءکی جنگ معاہدہ تاشقند کے نتیجے میں ختم ہوئی ٹھیک پانچ سال بعد 1970ءمیں پاکستان میںحق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات ہوئے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو اکثریت ملی۔اقتدار کی کشمکش نے طول کھینچا۔یحی خاں سمیت کئی ایک نے غداری کی۔ انکے نام اور کارنامے لکھنا اب ازکار رفتہ ہے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی لڑائی میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیاسونار بنگلہ ہم سے بچھڑ گیا۔مسجد وں کے شہر ڈھاکہ میں ہندوستانی افواج کے غلیظ دستے داخل ہوگئے۔بے کسی کا یہ عالم ہوا کہ کلکتہ کے بازاروں تک ہماری بنگالی بہو بیٹیاں پندرہ سے بیس روپے میں نیلام ہوئیں۔لندن میں مقیم ایک پاکستانی فیکٹری ورکر عبداللہ یہ المیہ سن کر دل کی بازی ہار کر جان سے چلا گیا۔ اصغرخاں اور ولی خاں کے سوا کسی نے اس دکھ درد کا حساب تک نہ مانگا اور ہم نے ایک "نیا پاکستان"بنا لیا۔

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
عزیز بھٹی شہید نے نشان حیدر حاصل کیا تو سات سال بعد جنوری 1972ءمیں انکے بھانجے میجر شبیر شریف شہید بھی اس مرتبے تک پہنچ گئے ۔جو مغربی پاکستان کے فاضلکا سیکٹر میں آگے ہی آگے بڑھتے گئے اور دشمن کی بے شمار چوکیوں پر اس طرح قبضہ کیا گویا وہ آنکھوں سے اندھے ہوچکے ہوں۔وہ بڑھتے بھی گئے اور چڑھتے بھی گئے یہاں تک کہ خون کے آخری قطرے کو مادروطن کے حوالے کردیا۔ پاکستانی فوج کے آٹھ جوانوں اور افسروں کی پرنور قبروں پر نشان حید ر جگمگا رہے ہیں ۔باقی کا ذکر کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔پھر ایک روز اسی خاندان کے ایک شخص جنرل راحیل شریف کو وزیر اعظم نواز شریف نے عساکر پاکستان کا سپاہ سالار بنا دیا۔جب تک وہ اس عہدے پر رہے یہی گمان رہا کہ فوج اور حکومت میں کوئی ہم آہنگی نہیں۔یار لوگوں نے اس تاثر سے کچھ امیدیں بھی وابستہ کرلیں۔شمالی وزیر ستان میں آپریشن کرکے خوب داد سمیٹی۔حالانکہ اس سے قبل سوات کی پوری وادی کو دہشت گردوں سے آزاد کرنے کا کارنامہ جنرل کیانی سرانجام دے چکے تھے۔راحیل شریف نے بھی کراچی میں ایم کیوایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کیخلاف بڑا بھر پور آپریشن کیا۔ڈاکٹر عاصم اور صولت مرزا وغیرہ اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ان دونوں جماعتوں اور کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک مذہبی جماعت کو بیلنے میں ڈال کران کا رس تک نچوڑ لیاگیا۔ لوگ منتظر ہی رہے کہ شائد پانچ دریاﺅں کی اس زمین کو بھی امن میسر آسکے۔لوگ دعائیں مانگتے رہے کہ کاش پنجاب کو بھی سوات کی طرح دہشت گردوں کی نرسریوں سے پاک کردیا جائے۔مگر یہ حسرت ہی رہی۔ نندی پور پاور پراجیکٹ چالیس ارب روپے سے زائد کھاکر بھی ایک میگا واٹ بجلی پیدا کئے بغیر وفات پاگیا۔مگر اسکے ذمہ دار کسی شخص پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اب اس المیئے کا کیا کیا جائے کہ اسی سال 2016ءکے ماہ مئی میں پاکستان کے جنوبی وزیر ستان کا علاقہ "انگوراڈہ" کی نوتعمیر شدہ چیک پوسٹ پاکستانیوں سمیت افغانستان کے ساتھ"بہتر تعلقات"کے نام پر اسکے حوالے کردی گئی۔ اب "انگوراڈہ" کا پاکستانی علاقہ پاکستان کی بجائے افغانستان کا حصہ ہے پاکستان کا نہیں۔وہاں کے مقامی لوگوں کی پاکستانی شہریت بھی ختم ہوچکی ہے۔کرنل (ر)انعام خواجہ نے اس پر لاہور ہائی کورٹ (پنڈی بینچ)میں درخواست دائرکردی ہے جو تاحال سماعت کی منتظر ہے ۔میجر عزیز بھٹی شہیدنشان حیدر نے جان قربان کردی لیکن مادروطن سے ایک ایک انچ کا دفاع کیا۔ میجر شبیر شریف شہید نشان حیدروطن پر فدا ہوگئے مگر ایک انچ زمین دشمن کے حوالے نہ کی ۔جبکہ "انگوراڈہ"کے سینکڑوں قبائل اور کئی کلومیٹر مادروطن کی زمین افغانستان سے "بہتر تعلقات" کے نام پر معہ پاکستانیوں کے انکے حوالے کردی گئی۔جس کا حساب گذشتہ دنوں "ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس"میں افغان صدر نے اپنی تقریر میں پاکستان کیخلاف سانپ کی طرح زہر اگل کربرابر کردیا۔ افغانستان کے ساتھ احسان توبہ توبہ۔ گذشتہ 37سال سے چالیس لاکھ مہاجر افغانوں کی میزبانی کا احسان کرکے بھی سبق نہ سیکھا۔ ہم واقعی "بادشاہ لوگ" ہیں!

مزیدخبریں