آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہاہے جس کا آغاز 1948ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو اختیار کرنے پر ہوا تھا-اس سال انسانی حقوق کا یہ عالمی دن ”آئیںہر کسی کے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں“ کے تھیم کے ساتھ منایا جا رہاہے-انسانی حقوق سے مراد وہ بنیادی حقوق اورآزادیاں ہیں جو کسی قومیت، جنس،سماجی گروہ بندی ،رنگ و نسل، مذہب، زبان یا رتبے سے قطع نظر ہر شخص کو حاصل ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور 1948ءبھی وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشرتی ترقی اور قانون کی عملداری کے ذریعے ان حقوق کے تحفظ پر مبنی اہم عوامل کی تشریح کرتا ہے۔ بچوں، خواتین، اقلیتوں، محنت کشوں کے حقوق کے علاوہ سماجی، شہری، معاشی، قانونی، ثقافتی اور اراضی کے حقوق بھی بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ دنیا کا ہر مذہب برابری کی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں میثاق مدینہ اور حجتہ الوداع کے موقع پر رسول پاک کا آخری خطبہ انسانی حقوق کی ترویج،روادای اور برداشت کی شاندار مثال ہیں جہاںکسی عربی کو کسی عجمی پر،کسی عجمی کو کسی عربی پر،کسی گورے کو کسی کالے پر اورکسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی تھی ماسوائے تقویٰ کے۔پاکستان کا قیام بھی ہر شخص کو اپنے عقائد اور خیالات کے اظہار کی مکمل آازادی کے منشور کے تحت عمل میں لایا گیا۔پاکستان کو اپنے قیام سے ہی انسانی حقوق کی پاسداری،دہشتگردی کے ناسور،اندرونی و بیرونی سکیورٹی خطرات اور فرقہ واریت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑھتی آبادی ،سیاسی عدم استحکام اور جاگیرداری نظام،بے روزگاری،نا انصافی اور غربت کے زیراثر ہمارے ملک میں انسانی حقوق کے معاملات بہت پیچیدہ اور گھمبیر ہیں۔آئین پاکستان تمام شہریوں کو آزادیءاظہار، فریڈم آف ایسوسی ایشن،مذہبی آزادی کے علاوہ ہر قسم کی قانونی سرگرمیوں کی بھی مکمل آزادی دیتا ہے تاہم بعض مذہبی انتہا پسند اور مذموم عناصر صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات اورمنفی مقاصد کے حصول کیلئے اسلامی تعلیمات کی اصل روح کو بگاڑ کر اور شدت پسندی کو فروغ دےکر انسانی حقوق سلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ہماری اجتماعی ، انفرادی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں- ہمیں مثبت رویوں کیلئے قومی سوچ کا فروغ نہایت ضروری ہے- تمام مذاہب انسانی حقوق کے تحفظ ، رواداری او رہم آہنگی کا درس دیتے ہیں- ہمیں ایسی پالیسیاں متعارف کروانی چاہیں جس میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو- پرامن معاشرے کی بقا کیلئے مذاہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بھائی چارے کی فضا قائم کرنی ہوگی-نوجوان ہمارآج ہیں اوران پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے ملکی ترقی انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے اپنااہم کردار ادا کریں- حکومت پنجاب نے انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے صوبہ کے 36 اضلاع میں ہیومن راہٹس ڈیفنڈر ز کا تقرر کیا ہے جو نہ انصافی و ظلم کا شکار ہونے والوں کو مفت قانونی امداد فراہم کررہے ہیں-ضلعی سطح پر قائم انٹرفیتھ کمیٹیاں اور اقلیتی مشاورتی کونسل میں تمام مذاہب کے علماکو شامل کیاگیاہے جس سے مطابقت کی فضا قائم ہوئی ہے- صوبہ پنجاب میں حقوق انسانی کے اصولوں کے حوالے سے لوگوں کا شعور اجاگر کرنے کیلئے آگاہی مہم کے تحت سیمینارز کا انعقاد بھی باقاعدگی سے عمل میں لایا جا رہاہے جبکہ مختلف بین الاقوامی حقوق انسانی کے کنونشنز پر عملدرآمد کیلئے متعلقہ محکموں سے بھی مسلسل را بطہ رکھا جاتاہے-انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے موثر قانون سازی اور اس پر سختی سے عملدرآمد انتہائی ضروری ہے- صوبہ پنجاب میں وزیراعلی محمد شہبازشریف کے ویژن کے تحت شہریوں کو بلا امتیاز بنیادی حقوق او رسہولیات کی فراہمی کیلئے گزشتہ تین سال میں موثر قانون سازی عمل میں لائی گئی- خاص طو رپر معاشرے کے نادار اور غریب طبقہ کے بچوں جیسا کہ بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو مشقت سے بچانے اور انہیں تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ خدمت کارڈز کے ذریعے انہیں او رانکے والدین کو مالی امداد فراہم کی گئی ہے-بھٹہ مزدوروں کو پیشگی کی زنجیروں سے آزادی دلانے کے لئے بھی قوانین میں ترمیم کی گئی ہے-اسکے علاوہ خواتین پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کے رویے کی حوصلہ شکنی کیلئے بھی قانون سازی ہوئی ہے جو ایک خوش آئندامر ہے-محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور کے زیر اہتمام پنجاب کے تمام اضلاع میں مذہبی ہم آہنگی کمیٹیوںکا قیام عمل میں لایا گیا ہے ، تمام سرکاری ملازمتوںمیں اقلیتوں کیلئے 5فیصد کوٹہ مختص کیا گیاہے جس پر عملدرآمد کی موثر مانیٹرنگ کی جاتی ہے- اقلیتی طلبا کو تعلیمی وظائف دئےے جا رہے ہیںجبکہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں اقلیتوں کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے- میرج رجسٹریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت اقدامات کئے گئے ہیں-چائلڈ لیبر اور گھریلو تشدد کے خاتمے جبکہ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے مختلف پیکجز بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔بچوں سے مشقت ، خواتین پر تشدد ، کم عمری کی شادی اور غیر اخلاقی عمل کیخلاف موثر قانون سازی کی گئی ہے جبکہ اقلیتوں اور معذور افراد کے تحفظ کیلئے بھی ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے جبکہ اقلیتی خواتین کی سکلز ٹریننگ کے علاوہ 25ہزار سے زائد اقلیتی خواتین کو موبلائز کرنے کیلئے فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا گیا ہے- انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایات کیلئے محکمانہ میکنزم تشکیل دیاگیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد اقلیتوں میں احساس تحفظ پیدا کرنا اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پرچار ہے-پاکستان کے آئین کے مطابق تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ ہم اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل کر کے اور لوگوں کو ان کے حقوق دلا کر معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں-ایک ایسا پاکستان تشکیل دےنے کیلئے جس کی پہچان امن ہو، ہمیں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا اور فرقہ واریت، دہشت گردی، معاشرتی ناانصافی اور تعصبات کا قلع قمع کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہونگے، بطو رپاکستانی شہری صرف اور صرف اپنے ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا ہوگا،معاشرے کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں انصاف، مساوات ، امن او رہم آہنگی کے قیام کیلئے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ آئےے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور نادار لوگوں کو انکے حقوق دینے کیلئے انصاف کا ساتھ دیںاور ایک مثبت اور انصاف پسند معاشرہ تشکیل دیں۔