مقبوضہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے۔یہ شہر رسول پاکﷺ کی جائے اسرار ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان،عیسائی اور یہودی تینوں مذاہب کے نزدیک انتہائی متبرک ہے ۔بیت المقدس کو عبرانی زبان میں یروشیلم اور عربی میں القدس کہا جاتا ہے۔اسرائیل کے قیام کی سوویں سالگرہ کے موقعہ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشیلم کے بارے میں متنازعہ اعلان کر کے یوری اسلامی دنیا بالخصوص اور دوسرے ممالک میں بالعموم تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔بیت المقدس دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر چار حصوں اسلامی، مسیحی،یہودی اور آرمینائی میں تقسیم ہے۔ عیسائیوں کے دو علاقے ہیں کیونکہ آرمینائی بھی عیسائی ہیں۔ مسلمانوں کا علاقہ چاروں علاقوں میں سب سے بڑا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف مذہبی طور پر بلکہ سفارتی اور سیاسی طور پر بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔اسرائیل کا قیام 1948میں عمل میں آیا جبکہ 1967کی جنگ میں اسرائیل نے حملہ کر کے القدس پر قبضہ کر لیا۔عرب اسرائیل تنازعے کی بنیاد آج سے ایک سو سال قبل یعنی 1917میں رکھی گئی۔انسانی یاد میں دنیا کا کوئی مقام بیت المقدس سے قدیم نہیں ہے تاریخ بتاتی ہے کہ اس خطے میں پہلے پہل " آل سام" اڑھائی سو سال قبل مسیح آباد ہوئے۔ انہیں کنعی یا فونیقی بھی کہا جاتا تھا۔ آل سام کے یہ قبائل جزیرہ العرب سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے۔تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام شہر "ار" سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے۔("ار" کا شہرجدید عراق میں دجلہ اور فرات کے سنگم پرواقع ہے)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے چالیس سال بعد آپ کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس میں "بیت ایل" پر ایک مذبح خانہ تعمیر کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اسرائیل کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔اسرائیل کے معنی "اللہ والے " کے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسبت سے اسرائیلی قوم وجود میں آئی۔ تاریخی شوائد کے مطابق سن 1012قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل کی تعمیر شروع کی۔ ہیکل اسی جگہ تعمیر ہوا جو حضرت دائودعلیہ السلام نے منتخب کی تھی ۔ روایات کے مطابق ہیکل کی تعمیر سات سال تک جاری رہی اور دو لاکھ سے زا ئد آ دمی مسلسل تعمیراتی کام میں مصروف رہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بیت المقدس اپنے دور کا خوبصورت ترین شہر بن گیا اور عظیم تجارتی کارواں یہاں تک آنے لگے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال 975قبل مسیح میں ہوا اور اس کے ساتھ ہی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی۔جنوبی سلطنت یہودہ کے پاس چلی گئی ، اس میں جنوبی فلسطین اور روم شامل تھے ،اس کا پایہ تخت یروشیلم (بیت المقدس)بنا ۔ شمالی سلطنت اسرائیل کہلائی جو شمالی فلسطین اور شرق اردن پر مشتمل تھی۔
یہودی عزائم پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مرحلہ وار مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ مورخین اس پر متفق ہیں کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کے تصرف کو عیسائی اور یہودی کبھی برداشت نہ کر سکے، بلکہ وہ ہمیشہ تلملاتے رہے اور اسی تلملاہٹ میں ایشائے کوچک(روم) کی عیسائی سلطنت کے حکمرانوں نے بار بار اسلامی سرحدوں پر حملے کئے لیکن انہیں ہر بار منہ کی کھانی پڑی۔ان ہی ایام میںتاتاری ، چنگیز خان کی قیادت میںسیلاب کی طرح دنیا پر چھائے چلے جا رہے تھے۔مشرق سے اٹھنے والا تاتاری سیلاب ہلاکو کی سرکردگی میں بغداد پہنچا۔ شاہ انطاکیہ نے ہلاکوخان سے رابطہ کر کے اسے فلسطین پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا اور خود بھی اپنے لشکر کے ساتھ ان سے آن ملا۔ہلاکو نے معاہدے دوستی کے تحت دمشق کی کئی مساجد عیسائیوں کے سپرد کر دیں۔جنہیں گرجوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ہلاکو خان نے بیت ا لمقدس کی طرف پیش قدمی کی ۔وہ جب فلسطینی سرحدتک پہنچا تو اسے خاقان اعظم منگو خان کے انتقال کی خبر ملی یوں وہ لوٹنے پر مجبور ہو گیا۔البتہ جاتے ہوئے دس ہزار تاتاری فوج صلیبیوں کی مدد کے لیے چھوڑ گیا،مگرصلیبیوں کو تاتاریوں کی مشترکہ فوج بھی خاطر خواہ کامیابی نہ دلا سکی۔تاریخ بتاتی ہے کہ بیت المقدس پر بار بار نا کام حملوں کی وجہ سے صلیبیوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے لیکن بیت المقدس کو حاصل کرنے کی آرزو ختم نہ ہو سکی۔ وہ نئے نئے منصوبے بناتے رہے ۔ پوپ مذہبی جنگ کی تبلیغ کرتے رہے مگر یورپ میں کوئی حرارت پیدا نہ ہو سکی۔اور یوں تین سو سال تک بیت المقدس پر ہلالی پرچم سر بلند رہا۔صلیبیوں کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں لیکن وہ کوئی بھر پور حملہ نہ کر سکے ۔ ایک مختصر عرصے کے علاوہ جس میں نپولین بونا پارٹ نے بیت ا لمقدس پر قبضہ کیا یہ مقدس شہر پہلی جنگ عظیم تک ترک سلطنت کے زیر انصرام ہی رہا۔ ترک دور حکومت میں بیت المقدس اپنی شان و عظمت کے لحاظ سے عروج پر پہنچ گیا۔پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر لیگ آف نیشنز نے فلسطین کا عارضی کنٹرول برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا۔لیگ آف نیشنز کے ختم ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے جنم لیا تو اقوام متحدہ نے فلسطین پر عارضی کنٹرول کا خاتمہ کرتے ہوئے فلسطین کو دو ریاستوں ایک عرب اور دوسری یہودی ریاست میں تقسیم کر نے کا اعلان کرتے ہوئے بیت المقدس کی بین الااقوامی حیثیت قائم کرنے کا اعلان کیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جب برطانوی فوجیں فلسطین میں داخل ہوئیں تو اس وقت یہودی فلسطین کی کل آبادی کا محض8فی صد تھے اور جب 1948میں ان فوجوں نے فلسطین سے واپسی اختیار کی برطانیہ ،امریکی زیر اثر یورپ، روس اور دیگر ممالک سے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کے با وجود یہودی فلسطین کی کل آبادی کا محض33فی صد تھے لیکن اس کے با وجود اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین کی قرارداد کے مطابق فلسطین کے بہترین اور زیادہ حصے پر مشتمل علاقوں پر صہیونی ریاست بنائی گئی۔1948 کو جب برطانیہ فلسطین سے گیا اور اسرائیل قائم ہوا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ گولہ باری سے مسجد اقصیٰ کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1958میں مسلم ممالک کی امداد سے مسجد کی مرمت کی گئی۔7جون1967 کو اسرائیل نے پورے بیت المقدس پر قبضہ کر لیااور 27 جون کو اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا ۔ 17 جولائی 1967 کو مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ بیک وقت مسلمانوں،یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے انتہائی متبرک اور مقدس جگہ ہے لیکن آج کی جدید دنیا کی تمام فہم و فراست ، دانش اور بصیرت ان تین بڑے الہامی مذاہب کی اس مقدس میراث کے ادب و احترام کا قابل عمل حل تلاش کرنے میں نا کام رہی ہیں۔اس صورتحال پر تینوں مذاہب کے بڑوں کی اجتماعی سوچ سے ہی معاملے کو حل کیا جا سکتا ہے اور اس حل کی جانب بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام اور یورپ کا میڈیا اس مسئلے پر اوپن ڈائیلاگ شروع کر ے تا کہ رائے عامہ ہموار ہو اور ان تینوں مذاہب کے درمیان پائی جانے والی صدیوں پرانی مخاصمت کو ختم کیا جا سکے۔
یروشیلم، بیت المقدس ،تاریخی پس منظر
Dec 10, 2017