واہ ری سیاست تیرے رنگ نرالے

ہمارے ملک کے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جذبات کی زبان، عقل اور ہیجان کی کیفیت سے ہردم دوچار رہتی ہے۔ معاملہ سیاسی ہو، غیر سیاسی، مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کبھی ہم سیاسی شخصیات کے ہاتھوں یرغمال بنتے ہیں، کبھی مذہب کے نام پر ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلنے والے ہمیں گھسیٹ کر سڑکوں پر لے آتے ہیں۔ ہماری حکومتیں کبھی خود تماشہ کرتی ہیں، کبھی کرواتی ہیں۔ معاملہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر ہو ہم اس میں کودنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، جلائو گھیرائو ہڑتال توڑ پھوڑ ہمارا معمول ہی بن چکا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ دنیا کے کسی حصہ میں پاکستان کے اندر پیدا ہونے والی یا پاکستان کے ساتھ پیدا ہونیوالی صورتحال پر کبھی کسی جگہ ایسا ہی احتجاج ہوا ہو جیسا ہم کرتے ہیں۔ گزشتہ 70برس سے ہم بہت سے مسائل سے دوچار رہے۔ امریکہ کو ہم نے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اسکی طرف غیر مشروط ہاتھ بڑھایا اور اس نے اسے خوب استعمال کیا۔ اسکے ساتھ دوستی کی اس وقت کوشش کی جب امریکہ ہمیں استعمال کر چکا تھا مگر یہ بے سود رہا ہمارے اندرونی معاملات میں کچھ ممالک نے اپنا حق سمجھ کر اور کچھ نے ہماری کمزوری کی بنا پر خوب مداخلت کی، اب بھی کسی حد تک جاری ہے، ختم ہوتے ہوتے ہو گی، ویسے تو دنیا بھر کے ممالک اپنے مفادات کے حصول کیلئے دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کوئی یکطرفہ اقدام نہیں ہوتا، خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات تو ہمارے روزمرہ کے معاملات میں ہر صورت شامل ہیں، مسلمانوں کے ملک پاکستان میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے غم و غصہ اور معاملات پر ردعمل اور شدید ردعمل ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ تمام دنیا سے مجاہدین یہاں اکٹھے کر کے جہاد افغانستان کے اثرات اور مضمرات سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ دنیا اور بالخصوص مغربی دنیا ہمیں ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کوئی یقین کر بھی لے تو اس کا یقین جلد شک میں تبدیل ہو جاتا ہے، سفارتکاری کے ذریعہ معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ہمارا فارن آفس اپنی ترجیحات کا تعین افسروں کے بدلنے کے ساتھ ہی بدل لیتا ہے، ہماری داخلہ پالیسی رحمن ملک کی اور تھی اور احسن اقبال کی اور۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد فیض آباد پر 2 سے 3 ہزار افراد کے دھرنے پر حکومتی رٹ کے بے اثر ہونے کے نتائج ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئے، عدالت کیمطابق اس معاملہ کی قانونی حیثیت پر بھی سوال ہے اور اس کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا حکم بھی ہے۔ اگر حکومت اس معاہدہ کو قانونی کہے تو کہہ نہ سکے گی کیونکہ جن کیخلاف مقدمات تھے اور وہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے تھے انکی حیثیت تو ملزم کی سی ہے، اگر اس کو پارلیمنٹ میں لایا جائے تو اپوزیشن حکومت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گی۔
آئین کی دفعہ 256کے تحت کوئی تنظیم، ادارہ، جماعت عسکری قوت عسکری جتھہ قائم نہ کر سکے گی اور ایسا کرنے والی جماعت غیر آئینی اقدام کے باعث کالعدم بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ وہ مظاہرین جنہوں نے ایف سی اور پولیس کے جوانوں کو زخمی کیا، ان پر مسلح ہو کر ہتھیار استعمال کئے انکے اس اقدام کو تو کوئی قانونی قرار دے ہی نہیں سکتا… اور پھر فوج، دین، عدلیہ اور ریاست کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں انکے اقدام بھی جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتیں، انکے اکابرین، کارکن اور کیا مذہبی تنظیموں کے کارکن گویا سبھی آئین کے آرٹیکل 256کے تحت غیر آئینی اقدام نہ صرف کر رہے ہیں بلکہ نفرت بھی پھیلا رہے ہیں ان پر قانونی گرفت کیونکر نہ کی جائے۔
لاہور ماڈل ٹائون میں پولیس فائرنگ کے نتیجہ میں ہونیوالے شہدا کے ورثا کا یہ مطالبہ کہ انکو انصاف چاہئے بالکل درست ہے کیونکہ یہ افسوسناک سانحہ ہے، خون ناحق تو معاف ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تین سال طویل انتظار کے بعد ابھی مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ صرف ایک عدالتی رپورٹ منظرعام پر آئی ہے۔ پنجاب پولیس تو کسی بھی شخص کو قتل کا مجرم بنا سکتی ہے اور سندھ پولیس کسی بھی مجرم کو معصوم قرار دے سکتی ہے سیاسی دبائو، انتقام، چپقلش، بدلہ، کوئی بھی نام دے دیں ایسا ہو سکتا ہے۔
آصف زرداری اپنی انتظامی صلاحیتوں، سیاسی عقل و فہم، علم و دانش اور خاندانی میراث کی بنا پر ایسی باتیں کر سکتے ہیں کہ خود انکی دانش حیرت زدہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تین سال قبل ان شہادتوں کے بعد اسلام آباد دھرنے میں میاں نواز شریف کا ساتھ این آر او اور سی او ڈی کے تحت دیا تھا۔ اب انتخابی سال میں ان کو شہادتوں اور صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی سفارت خانہ تبدیل کرنے پر ایک نیا لائحہ عمل طے کرنے کا موقع ملا تو وہ فوراً لاہور تشریف لے گئے تا کہ اچھی ضیافت کے ساتھ ایک نئی سیاسی شطرنج کی بساط بچھا کر نئی بازی کھیلی جائے۔ آصف زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سے کوئی ایسا انتقام لیا ہے جو کوئی اور لے بھی نہیں سکتا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں چودہ سو ووٹ حاصل کر کے وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ واہ ری سیاست تیرے رنگ ہی نرالے… ایسے میں وہ عوامی تحریک کی حمایت کریں گے۔
ابھی علامہ خادم رضوی اپنے ساتھیوں سمیت پھر اسلام آباد آنا چاہتے ہیں۔ بعض پیر صاحبان رانا ثنا اللہ کو پھر کلمہ طیبہ پڑھانا چاہتے ہیں۔ علامہ خادم رضوی نے جو زبان سڑکوں بازاروں اور جلسے جلوسوں میں استعمال کی وہ اتنی متاثر کن ہے کہ سوشل میڈیا پر اسکی مثال نہیں مل رہی… اور جو کچھ انہوں نے طاہر القادری کیلئے کہا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ سیاستدان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اگلے دنوں میں کون کیا بنائے گا۔ کیا کچھ بنانے والی عدلیہ ہو گی۔ سیاسی جماعتیں ہوں گی یا پھر جناب ختم رسلؐ کی شان میں اضافہ کروانے والے غیر سرکاری مسلح جتھے ہوں گے۔
11 دسمبر سے سینٹ کا اجلاس بھی شروع ہو رہا ہے۔ اس میں آئینی ترمیم کی منظوری کا بھی امکان ہے۔ اگر منظوری ہو گئی تو حلقہ بندیوں کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا بصورت دیگر انتخابات اگلے برس مگر تاخیر سے ہونگے وہ جماعتیں جو جلد انتخابات کی بات کر رہی ہیں ان کو بھی آئینی صورتحال کا جائزہ لے لینا چاہئے پرانے کانگرسیوں سے ملاپ ہو رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے محافظوں کو ایک نئی نظریاتی جنگ اب لڑنا ہو گی کیونکہ کانگرس سے آئے ہوؤں کے ساتھ تو معاملہ چل سکتا ہے مگر کانگرس کی طرف سے جانیوالوں کے نظریات پر بات نہ بن پائے گی۔یہ محسوس ہوتا ہے کہ مذہبی خیالات کے حامی گروپس کو سیاسی محرکات رکھنے والی سیاسی جماعتیں اس وقت آگے بڑھا کر ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں بے بس ہو جائیں اور کسی نہ کسی طرح اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں تاکہ انتخابی عمل تو متاثر ہو، سو ہو پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کے خاندان کو ان دو حکومتوں کی وجہ سے جو سہولت اور پروٹوکول مل رہا ہے اسکا بھی خاتمہ ہو۔ غور کیا جائے تو مسلم لیگ ن کی حلیف جماعتوں میں وہ جوش و جذبہ اب باقی نہیں رہا کہ جس کی بنیاد پر وہ من مرضی کے فیصلے کر سکیں۔ میاں نوازشریف اور شہباز شریف یقیناً بہت دباؤ کا شکار ہیں اور جس طرح میاں نوازشریف حالات کا مقابلہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اس سے کامیابی کے امکانات روشن ہوتے بھی نظر نہیں آتے۔ حکمرانوں کے جب دن پلٹتے ہیں تو سبھی کچھ لپٹ اور تلپٹ ہو جایا کرتا ہے فرد یا غیر سرکاری ادارہ بلکہ سرکاری ادارہ بھی ریاست کیساتھ جنگ کر کے صرف ہار سکتا ہے۔ اسکی جیت کا امکان سمجھوتہ اور اصول میں ہی ہوا کرتا ہے اور اصولوں پر زندگی کانٹوں پر سونے کے برابر ہوا کرتی ہے۔
ملک میں مذہبی اشتعال‘ ضد‘ فرقہ بندی ایک تشویشناک بات ہے اور اگر اسکے ساتھ سیاسی اور عدالتی معاملات بھی جڑ گئے تو صورت حال خرابہ ہو گی۔ مزیدبرآں صدر ٹرمپ کے یروشلم میں سفارت خانے کی تبدیلی کا ردعمل ابھی تو شروع ہوا ہے اس میں اضافہ کا امکان ہے۔ مسلمان بیت المقدس اور یروشلم کے معاملہ پر کوئی نرمی نہ دکھائیں گے اور ردعمل کے نتیجہ میں یہاں بھی صورت حال ایسے ہی خراب ہو گی جیسے کسی بھی مسئلہ پر امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان میں جذبات اور ردعمل ہوا کرتا ہے۔ ترکی نے باوجود یہ کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر رکھا ہے مگر اس نے او آئی سی کا اجلاس طلب کر کے پہل کی ہے۔ ایران کا ردعمل بہت شدید ہو گا۔ سعودی عرب شاید کوئی درمیانی راستہ نکالے مگر ہمارے پاس ردعمل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن