کرپٹ مافیا کیخلاف کاروائی لوٹی دولت و اپس لائی جائے ہائیکورٹ بار کی اے پی سی

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس نے مارشل لاء کے خلاف‘ جمہوریت کے تسلسل اور بروقت انتخابات کے حق میں مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا۔ اعلامیہ میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طورپر تسلیم کرنے کے امریکی صدر کے فیصلے کی مذمت کی گئی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کرپشن مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے۔ اعلامیہ میں عدلیہ کے خلاف تنقید کے سابق وزیراعظم کی عدلیہ مخالف مہم کی مذمت کی گئی۔ اعلامیہ میں ٹرمپ کے اقدام کی شدید مذمت کی گئی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کے حق میں جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ خود کو فرشتے اور ٹھیک سمجھنے کا رویہ درست نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے چابی دی جا رہی ہے۔ ٹریلر چلائے جا رہے ہیں تو پھر ہم مزاحمت ضرور کریں گے۔ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانی ہے تو انتخابات کروانا ہونگے۔ اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی توذمہ دار بڑی سیاسی جماعتیں ہونگی۔ نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک آمر کا قانون تھا جسے ہم نے تبدیل کیا۔ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کرپشن کے نظام کا خاتمہ کئے بغیر ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ جو رکن اسمبلی نہیں‘ اسے سیاسی جماعت کا سربراہ بنانا لمحہ فکریہ ہے۔ شیخ رشید نے کہاکہ جمہوری کرپٹ وزیروں کو پھانسیاں دینے پر ہی بچے گی۔ موجودہ دور حکومت میں جتنا قرضہ لیا گیا اتنا ستر برسوں میں نہیں لیا گیا۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا ہے کہ شہبازشریف اچھا کام کر رے ہیں مگر گلیاں بنوانا‘ سڑکیں اور پل بنانا وزیراعلیٰ کا کام ہے؟ شہبازشریف جو کام کر رہے ہیں یہ تو میئر کے کرنے کے کام ہیں۔ ملکی سیاست میں یہ تاثر ہے کہ وزیراعظم بننا ہے تو جی ٹی روڈ کی سیاست کر لو۔ پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ کسی طالع آزما کو جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے۔ آل پاکستان پارٹیز کانفرنس اس وقت بدنظمی کا شکار ہوگئی جب دو وکلاء گروپ آپس میں لڑ پڑے۔ صدر ہائیکورٹ بار اور سیکرٹری کی مداخلت پر معاملہ رفع دفع کرا دیا گیا۔ کانفرنس شروع ہوتے ہی اس وقت بدنظمی پیدا ہوئی جب دو وکلاء گروپ انتظامی اختیارات کے باعث ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ ممنوعہ راستے سے داخل ہونے پر وکیل نے اپنے ساتھی وکیل کو روکنے کی کوشش کی تو دھکم پیل شروع ہو گئی۔

ای پیپر دی نیشن