کوئٹہ(امجد عزیز بھٹی سے )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں ملک میں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے انکے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے صحت ،تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ،پاکستان میں پانی کا مسئلہ ”واٹربم“ بن چکا ہے جسے انشاءاللہ جلد حل کرلیا جائے گاملک میں منرل واٹر کمپنیاں سالانہ 7بلین گین پانی استعمال کر رہی ہیں جن پر کوئی ٹیکس نہیں تھا تاہم اب ہم نے فی لیٹر ایک روپیہ ٹیکس لگایا ہے جو ہر صوبے کو ملے گا جسے صوبے پانی کی صورتحال کو بہتر بنانے پر خرچ کریں گے، بار اور بینچ ایک دوسرے کی طاقت ہیں جو ملکر عوام کو جلدانصاف کی فراہمی ممکن بناسکتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اتوار کی رات سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر امان اللہ کنرانی کی جانب سے اپنے اعزازدیئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ ،جسٹس گلزار احمد ، جسٹس مشیرعالم ،چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس طاہرہ صفدر، گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی،صوبائی وزیرداخلہ سلیم احمد کھوسہ ، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی امان اللہ کنرانی،ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ سمیت دیگر ججز سینئر وکلاءنے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلوچستان میں مجھے جو محبت ملی اور جو کلمات میرے لئے ادا کئے گئے میں اس کیلئے بلوچستان کے عوام اور وکلاءکا انتہائی شکر گزارہوں ۔انہوں نے کہا کہ جج صرف گروپ نہیں ہے بلکہ ایک یونٹ اور ادارے کے تحت کام کر رہے ہیں عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے آئین کے آرٹیکل 199اور 184کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جس کے مختلف طریقہ کار ہیں اس میں سوموٹو ایکشن کا امکان اور گنجائش بھی موجود ہے جن معاملات پر میں نے محسوس کیا کہ عوام کے حقوق کی نفی ہورہی ہے اسکا سوموٹو لیا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ زیادہ بھی ہوگیا ہے تاہم ہمارا یہ اقدام عوام کی بھلائی اور فلاح و بہبود کیلئے ہے ملک میں غریب کی حالت انتہائی خراب ہے اسکا کوئی پرسان حال نہیں ہے بنیادی ضروریات صحت ،تعلیم اورپینے کا صاف پانی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے میں جب بلوچستان آیا تو مجھے پتہ چلا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے جسکے بعدہم نے پانی کے مسئلے پر کام کرنا شروع کیا جو آج ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے اورانشاءاللہ تعالیٰ اب کوئی بھی پانی کی کمی کے باعث نقل مکانی نہیں کریگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ملک میں منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیاں سالانہ 7بلین گین پانی استعمال کررہی ہیں لیکن اسکا کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جارہا ہے لیکن اب ہم نے فی لیٹر ایک روپیہ ٹیکس مختص کردیا ہے اور یہ رقم قومی خزانے میں نہیں بلکہ صوبوں کو ملے گی جسے صوبے پانی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے خرچ کرنے کے پابند ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ میں برطانیہ گیا تو وہاں پاکستان کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کے دل میں پاکستان کے لئے بے انتہاءاور ناقابل بیان محبت تھی لوگوں کا پیار تھا کہ انہوں نے پانی اور صحت کیلئے 9.7ملین پا¶نڈ کے عطیات دیئے جس پر برطانیہ پارلیمنٹ بحث ہوئی کہ اتنی بڑی رقم کیسے پاکستان منتقل کی جائے گی جس پر حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا کیونکہ یہ اوورسیز کا حق ہے کہ وہ اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کرسکیں اللہ کا شکر ہے کہ پانی کا مسئلہ جو ہمارے لئے ”واٹر بم“ بن چکاتھا ہم اس پر قابو پالیں گے ۔انہوں نے کہاکہ عدلیہ ،بار ایک دوسرے کی طاقت ہیں ہم ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کو جلد از جلد سستا اور فوری انصاف فراہم کریں لیکن صورتحال یہ ہے کہ چھوٹے موٹے کیسز بھی کئی کئی سال تک لٹکے رہتے ہیں ہمیں وکلاءکا تعاون درکار ہے تاکہ لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ میں جارہا ہوں لیکن سپریم کورٹ میں جو جج چھوڑ کر جارہا ہوں وہ ناقابل تسخیر قلعے ہیں وہ انتہائی دیانتدار ،قابل اور ذہین ہیں انہی کی وجہ سے آج دنیا بھر میں سپریم کورٹ کا نام وثوق اور تزئین کے ساتھ لیا جارہا ہے مجھے فخر ہے کہ سپریم کورٹ اورہائیکورٹ میں انتہائی قابل اور محنتی ججز کام کر رہے ہیں اوانشاءاللہ مستقبل میں بھی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے گی اور جوڈیشل کونسل کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے لئے میرٹ پر ججوں کا انتخاب کیا جائے گا۔اس سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے صدرامان اللہ کنرانی ایڈ¶وکیٹ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی کیلئے کوششیں ناقابل فراموش ہیں ملک کے 22کروڑ عوام کی تمام تر امیدیں عدلیہ سے وابستہ ہیں ماضی میں ملک میںپانی کے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن چیف جسٹس پاکستان نے جو پانی کیلئے تحریک شروع کی ہے وکلاءاس تحریک کا ہر اول د ستہ ہیں اور ہم اس کام میں چیف جسٹس کے شانہ بشانہ ہیں
چیف جسٹس