قارئین کرام میرا تو لمحہ موجود میں یہ سوچ کر دماغ ماوف ہونے کو آگیا ہے کہ آخر یہ ہم سب جنہیں رب رحیم و کریم نے زندگی کی محض بندگی کی معنوں میں برتنے ،نیکیاں کرنے اور نیکیوں کو عام کرنے کیلئے کرہ ارض پر بھیجا تھا کن بھول بھلیوں میں پڑگئے ہیں؟کس بے معنی اور پرفریب دنیا کی جادو نگری کے ساکت قیدی بند کررہ گئے ہیں؟ہماری بنیادی،بنیاد روحانیت ،روحانی اقدار،روحانی سکھ سلامتی اور بے سدھ کردینے والا بے ریا امن کہا چلا گیا ہے؟ایسی درد ناک بلکہ جان لیوا سوچوں نے ابتدائی کچی عمر سے ہی میرا جینا حرام کردیا لیکن الحمد اللہ ہمیشہ منفی سے مثبت انداز فکر کشید کرتی رہی،عبادت نیم شبی میں تخلیق امن عالم کیلئے دعا گو رہی گوکہ جاں بی لب رہی،اس سے سوال ہوتے رہے،جواب آتے رہے،غیر معمولی کیفیات سے دوچار رہی یہاں تک کہ روحانیت پر چار کتابیں ترتیب پاگئیں جن میں سے تین کتابیں حکومت نے فوری طور پر یونیورسٹیز سے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کیلئے ’’بطور ضروری مطالعہ‘‘منظور کرلیں جبکہ روحانی اقوال و افکار پر مبنی چوتھی کتاب’’تیسری آنکھ سے‘‘کو گولڈ میڈل مل چکا ہے مگر مجھ حقیر نے کبھی اپنے الفاظ کا مول سونے میں نہیں لگایا بلکہ ہمیشہ دعاگو رہی کہ وہ میری کھری تخلیق کے الفاظ کو سونا کردے بہرحال قارئین کرام آج عام موضوعات سے ہٹ کر روحانیت پر بات ہوگی ۔ قوم میں انسانیت اور انسانی و اخلاقی اور روحانی اقدار کی بیداری بلکہ آبیاری خاطر اور کردار سازی کیلئے اپنا روحانی فکر و تدبر پیش کررہی ہوں خدا کرے کسی کو نقطہ بھر فائدہ پہنچ جائے دنیا میں سب سے بڑا اور کڑا یقین اللہ تعالٰی کی غیب الوجود ہستی پر یقین رکھنا ہے اگر آپ اس یقین تک پہنچ گئے ہیں تو پھر خدا تک بھی پہنچ گئے ہیں۔
٭روحانیت ہمارے فکر و شعور کی راستی کا نام ہے
٭جس طرح ققنس پرندہ اپنی آگ میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے اور ایک خاص مدت کے بعد دوبارہ اپنی راکھ سے جنم لیتا ہے اسی طرح ہم جب تک اپنی ہستی کو اللہ تعالٰی کی راہ رضا میں فنا نہیں کردیتے روحانی حوالے سے دوسرا جنم نہیں لے سکتے۔دوسرالفاظ میں اپنی نئی روحانی ہستی کی تعمیر کے لئے خود اپنے ہاتھوں اپنی پرانی پر نفس شخصیت کی عمارت کو منہدم کرنا پڑے گا۔٭ روحانی روشنی اور راستی کا خزانہ ہر انسان کے اندر موجود ہے لیکن وہ اس کے دباؤ دے بچنے کے لئے اسے دبائے رکھتا ہے٭اگر ارض سماء کے درمیان ہر چیز متحرک اور ارتقاء پذیر ہے تو پھر انسان اپنے پاکیزگی فکر و عمل میں جمود کے باوجود کس طرح روحانی ترقی حاصل کرسکتا ہے؟٭ روحانیت کی ابتداء بھی صبر،انتہا بھی صبر٭تصوف خود کو کلی طور پر رضائے الہیہ میں سونپ دینے کا نام ہے٭ آپ کا روحانی ارتقاء سکون قلب کی صورت میں آپ کو موصول ہوجاتا ہے دنیاوی کامیابیوں کی آس دل میں رکھ کر اب کریم و رحیم کے قریب جانا چاہو گے تو جتنا قریب جانا چاہو گے اس سے کہیںزیادہ دور کردیئے جاؤ گے٭ دنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت مقرر ہے آزادی کی قیمت جان ہے شوق کی قیمت جنون ہے محبت کی قیمت قربانی ہے باقی اشیاء کی قیمت روپیہ پیسہ ہے لیکن روحانی ارتقاء کے لئے آپ کو یہ چاروں اکٹھی قربانیاں دینا ہوں گی٭اگر انسان روحانی اعتبار سے اپنے خالق کے ساتھ مضبوطی سے مربوط ہے تو پھر اس کے ظاہری ملبوسات اس کے ساتھ ساتھ اس کے کسی رابطہ کو کھوٹا نہیں کرسکتے۔اگر کالی کملی اوڑھنے والے اکمل ہستی معراج تک پہنچ سکتی ہے تو آپ کو اچھے کپڑوں میں ملبوس کوئی درویش کیوں نہیں مل سکتا؟٭ روحانیت کا ترجمہ ہر سطح پر جبر ذات ہے٭روحانی ارتقاء کا سارا راز سہنے میں ہے کہنے میں نہیں٭پرندہ وہی شکار ہوتا ہے جو آشکار ہوجاتا ہے شکاری اسے گھونسلے سے نکال کر شکار نہیں کرتا ہے اس طرح انسان بھی ترک موجودات کرکے ذات کے خول ہی میں محفوظ رہ سکتا ہے اور اپنے خالق حقیقی سے قریب تو ہوسکتا ہے اگر وہ دنیا داری میں پھنس گیا اور ظاہری نمود و نمائش میں گھرگیا تو اسی لمحے صدمات و تفکرات زمانہ کا شکار ہوجائے گا۔٭اگر آپ اپنے خالق تک پہنچنا چاہتے ہیں تو خود کو براہ راست اس کی سپرد داری میں دے کر لمحہ لمحہ اندر باہر سے شفاف نیت کے ساتھ اس تک پہنچنے کے لئے ایمانداری کے ساتھ ریاضت کریں ورنہ دنیاداری میں تہہ بہ تہہ اترنے کے بعد اس تک پہنچنے کے لئے آپ کوئی ذیلی سڑک اختیار نہیں کرسکتے٭دنیاداری کی دلدل میں پھنسنے سے بچنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اپنی خوشی اور رضا سے اپنے اندر پت جھڑکا موسم لگوا لو دل کی ٹہنی سے بے معنی خواہشات اور فضول آرزوں کو خشک پتوں کی طرح جھاڑ دو صرف یاد الٰہی کی کونپل ہری رکھو ورنہ روحانیت کے چمن پر خزاں چھاجائے گی اور دل کے سارے موسم زوال پذید رہیں گے٭روحانی بیداری اور دنیا داری دو متوازی خصوصیات ہیں ان کا آپس میں ملاپ ممکن نہیں ہے اگر آپ کے اندر روحانی روشنی موجود ہے تو پھر اس میں دنیاداری کے اندھیرے داخل نہیں ہوسکتے اور اگر آپ کے اندر پہلے ہی سے دنیاداری کے اندھیرے اترے ہوئے ہیں تو وہاں روحانی روشنی کیسے اُگ سکتی ہے؟