دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 3 دسمبر عالمی یومِ معذوراں یعنی خصوصی افراد کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر 1992 کو منظور ہونیوالی قرار داد نمبر 3/47کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہی 2006 میںکنونشن برائے حقوق ِمعذور اں منظور کیاجس میں دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میںجسمانی اور ذہنی طور پر معذور یعنی خصوصی افراد کو مساوی مواقع فراہم کرنے کیلئے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ایک ذمہ دار مملکت کی حیثیت سے پاکستان نے بھی اس کنونشن پر دستخط کئے۔ اسکے باوصف خصوصی افراد کے حوالے سے پاکستان کی مجموعی صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں۔ قومی مردم شماری رپورٹ 1998 کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 2.49 فیصدخصوصی افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں 55.7 فیصد پنجاب ، 28.4 سندھ ، 11.1 فیصدصوبہ سرحد ، 4.5 فیصدبلوچستان اور0.3 فیصد دارالحکومت اسلام آباد میںآباد ہیں۔ مردوں کی تعداد دیہی اورشہری دونوں علاقوں میں خواتین سے زیادہ ہے۔ پچھلے اکیس برس میںبوجوہ پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کیمطابق اس وقت پاکستان میں 13.4فیصد یعنی 2کروڑ 0 8 لا کھ افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبردآزما ہیں۔ جسمانی معذوری ایک وسیع ،پرت داراور قدرے غیر مانوس اصطلاح ہے جو بنیادی طور پرکسی فرد کی مخصوص جسمانی کیفیت کے علاوہ اس کیفیت کے سبب پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ جسمانی معذوری کی تین اقسام ہیں: نمبر ایک disabilityیعنی جسم کے کسی حصّے یا عضو بشمول ذہن غیر فعال ہونا؛نمبر دو handicap یعنی انسان کا اپنے جسم یا دماغ میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کے سبب بعض افعال سر انجام دینے سے معذور ہونا اور نمبر تین impairment یعنی جسم کے کسی حصّے میں کسی بگاڑ کا پیدا ہو جانا۔ نتیجتاًوہ تمام افراد خصوصی کہلاتے ہیں جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے، سونگھنے ،بولنے ، مناسب انداز میں نقل و حرکت کرنے اور معمول کیمطابق معاشرتی تعلقات استوار کر نے کی صلاحیت مفقودہویا عام لوگوں کے مقابلے میں کم ہو۔ بدقسمتی سے خصوصی افراد کے حوالے سے ہمارا معاشرے کا عمومی رویہ غیر مناسب اور قابل ِمذمت ہے۔ ہم ان افراد کو جو جسمانی اعتبار سے ہم سے مختلف ہیںیا تمسخر اور تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں یا انھیں ترحم اور حیرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویئے خصوصی افراد کی زندگی کو نہ صرف مذید مشکل اور تکلیف دہ بناتے ہیں بلکہ ان کیلئے گہرے نفسیاتی مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ کارپردازانِ ریاست کیلئے ضروری ہے کہ خصوصی افراد کی فلاح و بہبودکیلئے معنی خیزپالیسی سازی کریں۔خصوصی افرادکے حوالے سے ترتیب دی گئی کسی بھی حکومتی اور معاشرتی پالیسی کے چاربنیادی مقاصد ہونے چاہئیں۔ اوّل،ملک بھر میں درست سروے کروا کر خصوصی افراد کی اصل تعداداور انکے عوارض کی نوعیت معلوم کرنا؛دوئم،ان افراد کو معاشرے کا مفید رکن بنانے کیلئے علاج کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ؛ سو ئم، خصوصی افراد کی مشکلات اور انکے معاشی ، قانونی اور سماجی حقوق کے حوالے سے عوا م النّاس میں آگاہی پیدا کرنا، اورچہارم، معاشرے کو ان افراد کی دلجوعی کرنے کیجانب مائل کرنا۔یہ حقیقت خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اس سلسلے میں بنیادی قانون سازی کی جا چکی ہے۔ معذور افراد (ملازمت و بحالی)آرڈیننس 1981،قومی ایکشن پلان برائے معذوراں 2006،مخصوص شہری ایکٹ 2008 اور مخصوص شہری (حق برائے رعایت نقل و حرکت) ایکٹ 2009مقننہ سے پاس کروائے جا چکے ہیں۔ قومی ایکشن پلان ایک اہم دستاویز ہے جس میں مختلف مختصراور طویل مدتی اقدامات کا ذکر ہے۔ مثال کے طور پر مخصوص افراد سے متعلق ڈیٹا بینک کا قیام؛منتخب اضلاع میں معذور افراد کیلئے نمونہ سروے؛ابتدائی اور ثانوی طبی امدادکے ذریعے معذوری کے خاتمے کی سعی؛ معذوری کی بروقت اطلاع اور اس حوالے سے فوری ادارہ جاتی مداخلت کے انتظامات،بحالی کی معیاری طبی خدمات کی دستیابی اور ان میں اضافہ؛مخصوص افراد کی امداد کیلئے غیر سرکاری تنظیموں کی حمایت کا حصول ؛تمام سرکاری، عوامی؛ نجی اور تجارتی عمارتوںکے اندازِ تعمیر میں ایسی تبدیلی جس سے مخصوص افرادآسانی سے ان تک رسائی حاصل کر سکیں اور ان میںبہ سہولت نقل و حرکت کر سکیں اور سوشل سکیورٹی کے منصوبوںمیں مخصوص افراد کے حوالے سے توسیع و افزونی۔ قانون کی کتابوں میں ان قوانین کی دستیابی کے باوجود مخصوص شہریوں کے مسائل میں اضافہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اصل مسئلہ نفاذ کے ناپید ہونے کا ہے۔ خصوصی افراد کا سب سے اہم مسئلہ انکی ذہنی و جسمانی بحالی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ہے۔ انکی تعلیمی ضروریات احسن طریقے سے پوری کی جانی چاہئیں اور انھیںمناسب روزگار فراہم کرکے معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جا نا چاہیئے ۔اس عمل کے ذریعے ہی مخصوص افراد معاشرے میں بطریقِ احسن ضم ہو سکیں گے اور انھیں اپنے مختلف ہونے کا احساس پریشان نہیں کریگا۔ ان افراد سے بہتر برتاؤ کی تربیت دینے کیلئے ذرائع ابلاغ اورمحکمہ ہائے تعلیم کو موثر کردار ادا کرنا پڑیگا۔ معاشرے کی روشِ عام کو بدلنا ہمیشہ کارِدارد رہا ہے لیکن بہرحال حکمت ، دانائی،انتظام اور سعئی مسلسل سے زندگی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔