اسلام آباد (عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) آج پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ بھارت میں اس وقت انسانی حقوق کے بدترین مجرم اقتدار پر قابض ہیں۔ 2019ء میں منتخب ہونے والے ارکان لوک سبھا میں 55 فیصد سے زائد پر اقلیتوں کیخلاف جرائم اور قتل کے مقدمات درج ہیں۔ بھارتی لوک سبھا میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے امیدوار کے منتخب ہونے کے امکانات 15.5 فیصد جبکہ شفاف شخصیت کے مالک کسی امیدوار کے جیتنے کے امکانات محض 4.7 فیصد ہیں۔ 2009 کے بعد سے بھارتی سیاست میں ’’مجرم لیڈران‘‘ کی تعداد میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگائوں بم دھماکوں میں ملوث کرنل پروہت، میجر اپادھیا، سوامی اسیم آنند، لوکیش شرما، سند یپ ڈانگے، کمل چوہان و دیگر کو تمام تر ثبوت کے باوجود آر ایس ایس کے ایما پر بری کر دیا گیا۔ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے حصے میں لوک سبھا سیٹ آئی، گجرات میں مسلمانوں کی تاریخی نسل کشی کرنے والے نریندر مودی دوسری بار وزارت عظمیٰ میں ہیں۔ اترپردیش کے ضلع گورکھپور میں بے قصور مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث یوگی ادتیہ ناتھ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ بابری مسجد کو شہید کرنے والے مرلی منوہر جوشی، ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی و دیگر ملزمان کو باعزت بری کیا جا چکا ہے۔ گراہم سٹینلے قتل کیس، احسان جعفری قتل کیس، عشرت جہاں آرا قتل عام، نیلی قتل عام، کنان پوشپورہ بربریت اور بھارتی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سفاکیت ہندوستانی حکمرانوں کے ماتھے پر ایسے سیاہ داغ ہیں جنھیں وہ کبھی صاف نہیں کر سکتے۔ رواں برس پیش آنے والے سانحات میں دہلی کے مسلم کش فسادات، ہاتھرس سانحہ، بھوپال قتل عام سمیت دیگر مقدمات کا بھی کوئی فیصلہ نہیںکیا گیا۔ خود بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے 2010ء میں سہراب الدین شیخ، انکی اہلیہ کوثر بی اور تلسی رام پرجا پتی کو ڈی آئی جی ونجارا اور ایس پی راجکمار کی مدد سے قتل کروا دیا۔ ان پر 19سالہ طالبہ عشرت جہاں کو چار افراد سمیت بے رحمی سے کھلے عام موت کے گھاٹ اتار نے کے مقدمات بھی درج ہیں۔ 2010ء میں بھارت کے مشہور تہلکہ میگزین نے موجودہ بھارتی وزیر داخلہ کے سیاہ کارناموں پر ایک فیچر شائع کیا۔ تہلکہ میگزین کے سرورق پر امت شاہ کی تصویر لگی تھی اور نیچے لکھا تھا ’’یہ انسان ابھی تک کس طرح آزاد ہے؟؟۔