ندیم بسرا
ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان تیز بیانات اور تند وتیز جملے عروج پر ہونے سے سیاسی ماحول کافی تنائو کا شکار ہے ۔ایک طرف پی ڈی ایم کے جلسے ہر حلقے میں زیر بحث ہیں اور دوسری جانب کورونا ہی کورونا نظر آرہا ہے اس صورتحال کو دیکھ کر لگ یہی رہا ہے کہ ملک کے دیگر مسائل’’ مہنگائی ‘‘، ’’بے روزگاری ‘‘ مسائل کا وجود ہیں ختم ہوگیا ہے۔ کیا اس صورتحال میں بہتری آئی گی ؟ ۔دراصل پاکستان کی مختصر سی جمہوری تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری حکومت کوبرداشت کرنے کا دورانیہ دو سے ڈھائی برس کا ہی ہوتا ہے ۔کیا سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ کسی منتخب جمہوری حکومت کو پانچ برس مکمل نہ کرنے دیا جائے ؟ ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت جب ضیاء الحق کے جانے کے بعد 1988 سے 1990 تک قائم ہوئی اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو کیاان کی حکومت اپنا پانچ برس کا مینڈینٹ جو عوام نہیں انہیں دیا وہ پورا نہیں ہو ا ۔فاروق خان لغاری جو اس وقت کے صدر پاکستان تھے انہوں اسمبلیاں وقت سے پہلے ہی تحلیل کردی گئیں۔ پھر 1990سے 1993 تک نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو ان کی مدت دورانیہ بھی بمشکل تین برس کا ہوار اور غلام اسحاق خان صدر پاکستان نے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الکیشن کا اعلان کردیا ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی 1993 سے 1997 تک چار برس ہی اپنا جمہوری سفر جاری رکھ سکی اور اسمبلیاں ایک بار پھر اس وقت کے صدر فاروق خان لغاری نے توڑ دیں ۔اس کے بعد 1997سے9 199 تک نواز شریف کی حکومت قائم رہی اور طیارہ سازش کیس میں نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا نٖفاذ کردیا ۔2003 میں الیکشن ہوئے اور پرویزمشرف کے دور میںپاکستان مسلم ق کااقتدار 2008 تک چلا ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 تک حکومت قائم کی ،آصف علی زرداری نے پانچ برس اپنی حکومت کو سیاسی دائو پیچ سے مکمل کیااور 2013 کے الیکشن میں نوزا شریف پھر وزیراعظم منتخب ہوئے اور ان کی حکومت ہچکولوں میں 2018 تک قائم رہی اور بے شمار سکینڈلز عوام کے سامنے آئے ،پھر پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں نے جو بلکل بھی نہ سوچا تھا کہ ’’تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے ‘‘ کا نعرہ پاکستان تحریک انصاف نے لگایا اور ایک منتخب حکومت وجود میں آگئی ۔ماضی کی تمام تلخیاں بھلا کر سبھی سیاسی حریفوں نے اس نئی تبدیلی کے خلاف اکھٹے ہوکر ’’پی ڈی ایم‘‘بنا لی اور اس کے جلسے اب ملک میں روانی اور تسلسل سے جاری ہیں ،قارئین تک یہ بات پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں یہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی فورم پر محاز آرائیاں کرتی رہیں اور ہر حربے سے اپنے مخالف جماعت کی حکومت کو گرانے کے لئے سینہ سپر رہیں آج یہ سیاسی جماعتیں اکھٹے ہوکر ایک بار پھر ایک منتخب جمہوری حکومت کی بساط الٹنے کے منصوبے بنا رہی ہیں ،ان سیاسی جماعتوںکا اپنا ماضی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں سیاسی جنگوں میں گزرا ہے ،پاکستان میں یہ روایتی سیاست کیوں ختم نہیں ہورہی اس کی بنیاد یا اس بیج کو بونے کا کام کس نے کیا انہیں سیاسی جماعتوں نے کیا ۔کیا موجودہ وزیراعظم عمران خان کا قصور یہ ہے کہ ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے ۔عالمی سطح پر عمراں خان ملک پاکستان کی عزت بڑھانے والے ایک شخص کے خلاف سازشوں کا اتنا سخت گھیرا کرنا کہ وہ صرف ’’ایماندار ‘‘ ہے۔ کیا عوام یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ’’کھیل کھیل ‘‘رہی ہیں۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ماضی میں ایک دوسری کی حکومتوں کو جب بھی گرایا اور اب یہ اکھٹے ہوکر یہی کام ایک منتخب حکومت کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں ۔ان کے پیچھے کیا سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں ؟۔ پی ڈیم ایم کی جماعتوں کا موجودہ سیاسی انتشار کا مقصد ’’این آر او ‘‘ ہی ہے اور بیرونی سازشوں بھارت ،اسرائیل ،برطانیہ ،امریکہ سمیت دیگر مخالف ملک پاکستان میں ان عناصر کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہے ،عوام کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ عمران خان کی زندگی کا مقصد ملک کے گند کا خاتمہ ہے کیا عوام کو عمران خان کاساتھ نہیں دینا چاہئے ؟ یقیننا عوام کو عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے اور آگے بڑھ کر عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئے ۔وزیراعظم اس نظام کے نمانئدے ہیں اور وہ بہتری کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔پی ڈی ایم کی تحریک اور ان کے جمہوری حکومت کی بساط الٹنے کے منصوبوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہونا الٹا بے یقینی کی کیفیت کا بڑھنا ہی ہوگاجس سے ملک کی معیشت کا پہیہ رک جائے گا ۔ ضروری یہ ہے کہ حکومت کو عوام نے پانچ برس کا مینڈیٹ دیا جس کو پورا ہونے دیا جائے۔ اپوزیشن اسمبلبیوں میں بیٹھ کر عوام کی فلاح کے لئے آواز بلند کریں تاکہ عوام میں اتنی پذیرائی بڑھے۔