مودی کاراج پنجابی کسانوں کی ٹھوکروں میں

جون 2020 ء سے بھارتی پنجاب کے کسان مرکزی حکومت کی طرف سے منظور شدہ تین کسان دشمن کالے قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ بھارتی پنجاب اس وقت مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے دو صوبوں کے نام سے تقسیم ہے۔ یہ سرسبز خطہ پورے ہندوستان کو اجناس مہیا کرنے میں سرفہرست ہے۔ یہاں کی زرخیز زمین کی وجہ سے یہاں کے کسان دوسرے صوبوں کی نسبت بہت خوشحال ہیں۔ یہی بات بھارتی ہندو توا کے مارے حکمرانوں سے برداشت نہیں ہوتی۔ ان کی کوشش ہے کہ جس طرح ان کا کالے زرعی قوانین نے بہار‘ اتر پردیش‘ بنگال‘ مدھیہ پردیش میں زراعت کا بیڑا غرق دیا اور وہاں کے کسانوں کو فاقہ کشی اور خودکشیوں پر مجبور کر دیا گیا۔ اسی طرح اب پنجاب کے خوشحال کسانوں کو بھی تباہی اور بربادی کے غار میں دھکیل دے مگر یہ بھارتی حکمرانوں کی خوش خیالی ثابت ہوئی۔ پنجاب میں ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی احتجاجی لہر چل نکلی جب حکمرانوں کے کانو ںپر جوں تک نہ رینگی تو ہریانہ اور مشرقی پنجاب کے یہ کسان منظم ہوکر دہلی کے گھیرائو کیلئے نکل پڑے۔ ان کی ایک ہی مانگ ہے کہ  یہ تینوں کالے قوانین منسوخ کئے جائیں۔ یہ قافلے جیسے ہی دہلی کی طرف نکلے تو انہیں بزور طاقت روکنے کی کوششیں کی گئیں مگر بھٹنڈہ‘ امرتسر‘ انبالہ‘ فیروز پور‘ چندی گڑھ‘ لدھیانہ‘ گورداس پور‘ کرنال پور پنجاب سے لاکھوں کسان دہلی کی طرف نکل پڑے جنہیں دہلی داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ 
وہ اس سردی کے موسم میں گزشتہ کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ڈیرے ڈاے ہوئے ہیں مگر اس بار سکھ ہو یا ہندو‘ مسلمان ہو یا عیسائی‘ پنجابی سب یکجان ہیں۔ وہ منظم طور پر آدھے افراد گھروں‘ کھیتوں اور خواتین کی حفاظت کیلئے گھروں میں گائوں میں چھوڑ کر 6 ماہ کا راشن ساتھ لے کر سڑکوں پر براجمان ہیں۔ ٹرینیں، گاڑیاں یعنی ہر قسم کی ٹرانسپورٹ بند ہے۔ یوں دہلی والے محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
ایسے میں بھارتی حکومت نے اپنے پالتو میڈیا کے ذریعے اب ان پنجابی مظاہرین کو جن میں اکثریت سکھوں کی ہے‘ خالصتانی کہہ کر ان کے خلاف ہندوئوں کے جذبات بھڑکانا شروع کردیا ہے۔ جس پر سکھ خاصے مشتعل ہیں۔ عالمی اور سوشل میڈیا پر سکھ مظاہرین نے کہا ہے کہ بھارتی میڈیا ہمیں جاہل گنوار  بھی کہتا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے یہ سب کھاتے پیتے خوشحال لوگ ہیں‘ کسان نہیں ہیں۔ ان میں خالصتان کے حامی چھپے بیٹھے ہیں مگر بھارتی بکائو میڈیا سن لے ہم نے محنت کرکے خوشحالی پائی ہمارے اکثر کسان گھرانوں کے لوگ باہر ہیں‘ فوج میں ہیں، سول سروس میں ہیں۔ ہم دوسری بھارتی کسانوں کی طرح بزدل نہیں ہم اپنے کو بھوکا مارنے والوں کا مقابلہ کریں گے جو ہمیں مارنے آئے گا ہم انہیں ماریں گے۔ اس صورتحال میں نہنگ سکھ بھی جو اپنی نیلی وردی اسلحہ کی وجہ سے دور سے پہچانے جاتے ہیں‘ وہ بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہوگئے ہیں۔  ہر روز پنجاب سے ہزاروں گاڑیوں میں راشن دودھ، پانی منظم طریقے سے دھرنے میں پہنچایا جارہا ہے۔ اس لئے وہ سب بے فکر ہیں۔
ان حالات نے بھارتی حکومت کو پاگل کردیا ہے۔ وہ اگر یہ تین قانون منسوخ کرتی ہے تو پھر بھارت کے باقی زرعی صوبے بھی یہی احتجاج کا راستہ اپنا کر اسے منسوخ کرا سکتے ہیں جس سے بھارتی حکومت کو سرمایہ فراہم کرنے والے کاروباری طبقے ناراض ہو جائیں گے۔ اب فنکار‘ سول سوسائٹی اور کھیل کی دنیا کے بااثر افراد بھی کسانوں کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسانوں کے حامیوں اور مخالفین میں غضب کا رن پڑا ہوا ہے مگر بھارتی بکائو مودی میڈیا صرف ایک بوڑھے سکھ کا کلپ چلا کر سکھوں کے خلاف عوامی جذبات ابھار رہا ہے جس نے کہا تھا ہم سے نہ ٹکرانا‘ ہم نے تو اندرا گاندھی کو پھڑکا دیا تھا۔ مودی تو کیا چیز ہے۔ سکھ اور پنجابی نوجوان کسان غیرممالک میں موجود سکھ اپنے ان کسان بھائیوں کی ہرممکن مدد کر رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک نے سرکاری سطح پر ان کی حمایت کی ہے مگر بھارت کو خطرہ ہے کہ اگر یہ پنجابی کسان جیت گئے تو پھر خالصتان تحریک کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کاش کوئی ان پنجابی سکھوں کو علامہ اقبال کا یہ شعر بھی یاد کرا دے۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
تو شاہد ان کی تحریک کو جلا ملے اور ہمارے کسانوں کو بھی ہوش آ جائے وہ بھی غفلت سے بیدار ہوںانکے دن بھی بدل جائیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن