کسی بھی ملک میں جسکا نظام اس بات کا دعویدار ہو کہ اس ملک میں جمہوریت ہے ، اسکے لئے حزب اختلاف اور حکومت کو اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرنا ہوتی ہے کہ وہ جمہوری نظام کی آبیاری کررہے ہیں مگر ہمارے ملک میں تو وہی جمہوریت ہے جو جس کے سر پر فٹ ہوسکے۔ یہی حال آزادی صحافت کا ہوتا ہے۔ میڈیا کی جو بات کسی کو بھلی لگے وہ اسے آزادی صحافت کا ثمر کہتا ہے جبکہ میڈیاکا ایک حصہ اشتہارات کی خواہش میں حکومت کی ہر جائز بات کو صحیح کہنے میں کہیں رکاوٹ محسوس نہیںکرتا ، سخن طرازی کا یہ عالم ہے کہ مخالفین کا جلسہ بڑا ہو تو اسے تین سو افراد کہا جاتا ہے ، نہ جانے کونسا ریاضی دان یہ حساب بتا تا ہے ، یہ صورتحال آج ہی کی ہرگز نہیں پاکستان کی تاریخ میں حکومت اور حز ب اختلاف میںگنتی کرنے کا یہ ہی مسئلہ رہا ہے ۔ نیز ہر حکومت ہمیشہ حزب اختلاف کی کسی بھی تحریک کیلئے یہ کہتی ہے عوام انہیں ٹھکرا چکے ہیں، انکے ساتھ لوگ نہیںہیں اگر ایسا ہے تو پھر ملتان کو جلسے کو روکنے کی حتی الامکان کوشش، پھر عدالتی حکم پر اجازت ، لاہور کے متوقع جلسے میں نوکر شاہی جسکی حکومتوںکو بدنام کرنے بڑی نظر و کرم ہوتی ہے ’’جلسہ روکنے کی تدابیر ‘‘ والی فائل نکال کر اس پر عمل کرنا شروع کردیا یعنی جلسہ گاہ میں گھاس کو پانی دینے کا خیال انتظامیہ کو آہی گیا اور گھاس کے ساتھ ساتھ میدان کو پانی سے بھرنا شروع کردیا۔ آج اس قسم کے شاہ سے زیادہ شاہ وفادار لوگ جو یقینی بات ہے حکومت کو اچھے لگ رہے ہونگے ، مگر یہی لوگ کل کوئی دوسری حزب اختلاف ہوگی اسکے ساتھ بھی یہ کررہے ہونگے اور بدنامی حکومت کے سر ہوگی۔جس کسی بھی نوکرشاہی کے کارندے نے کارنامہ انجام دیا ہے اس سے کوئی واقف نہیںہوگا مگر اسکا الزام تحریک انصاف کے کھاتے میں لکھا جائے گا ، یہ مشیران یا حکومتوں کے اعلی عہدیدارکیوںسمجھنے سے قاصر ہیںکہ غلط بیانی سے ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا ہے ، ہر حکومت عوام کیلئے کوئی نہ کوئی اچھا کام کرتی ہے مگر جھوٹ سب اچھے کام کو ملیا میٹ کردیتا ہے ۔ سابقہ حکومتوںنے اپنے مخالفین کو دبانے کیلئے NAB اور احتساب عدالتوں کو متعارف کرایا ، چونکہ ملک میں قانون متعارف ہوچکا ہے اور انہی سیاست دانوں نے بنایا ہے جو آج NAB پر الزام تراشیاںکررہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ نیب ہے ہی انتقامی سیاست کو فروغ دینے کانام ، نہ جانے ایسا کیوں نہیںہوتا کہ ملک میں ایک ہی ادارہ ہو جو کرپشن کی تحقیقات ، سزا کا تعین کرے ، نہ کہ پہلے نیب ، احتساب عدالتیں، پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ بازی، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معتبر جج صاحبان NAB کو بارہا تنبہہ کرچکے ہیں، مگر نیب اپنی ڈگر پر گامزن ہے۔ پی پی پی نے مسلم لیگ کے خلاف اور اب پی ٹی آئی نے پی پی پی اور مسلم لیگ کے خلاف میڈیا ٹرائل کرنے ، انہیں پابند کرنے میں حکومت وقت کی سہولت کار ہے ، حکومت کا یہ کہنا کہ NAB آزاد ہے وہ حکومتی اراکین کی بھی تحقیقات کرسکتی ہے یہ آدھا سچ ہے۔کچھ لوگوں پر مقدمات تو بنے مگر انکی فائلوںپر دھول جمی ہوئی ہے اور موجود ہ حکومت کے مخالفین کی فائلوںکی صفائی روز کی جاتی ہے ۔ کرپشن ہمارے جیسے ممالک میں کروناء سے زیادہ خطرناک وباء ہے کروناء تو کسی نہ کسی ویکسین سے قابو آجائے گا مگر کرپشن کے کنٹرول کیلئے کوئی ویکسین نہیں ہے ۔ کئی ممبران قومی اسمبلی اور وزراء تو ماضی میں بر ملا اس بات کا اظہار کرچکے ہیںکہ ہم نے کروڑوںروپیہ خرچ کیا ہے ۔ آج کی دنیا میں کوئی بہادر ایسا نہیں جو کروڑوں روپیہ خرچ کرکے ’عوام کی خدمت ‘‘ کیلئے سامنے آئے ، یہ اراکین اسمبلی ، یہ سیاسی جماعتیں اس بات سے قاصر ہیں کہ ملک میں کوئی شفاف نظام متعارف کراسکیں،یہ نیب سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی کے تین سال قبل کے LNG اسکینڈل پر انہیں طلب کرسکتی ہے انہیں تحقیقا ت کے نام پر جیل میںبھی رکھ سکتی ہے مگر اسکا کیا کہیں کہ حال میں LNG تاخیر سے خریدنے پر اس غریب ملک کا اربوں روپیہ ضائع ہوا، وزیر اعظم کو بے شمار معاملات پر یہ ’’باہر ‘‘سے آئے ہوئے ’’تجربہ کار ‘‘معیشت دان اندھیرے میں رکھتے ہیں، اگر چہ تحریک انصاف کے منتخب ہوکر حکومت میںآنے والے کئی تعلیم یافتہ افراد موجود ہیںمگر بد قسمتی سے نہ جانے کس بنیاد پر ’’باہر ‘‘ سے ’’تجربہ کار‘‘ لائے گئے افراد جو صرف نوکر شاہی کے ساتھ کام کرنا جانتے ہیں کسی بھی عوامی منتخب شخص کو خاطر میںنہیںلاتے۔ پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں جسکا جواب تحریک انصاف کا کوئی بھی شخص جو عوام کا ووٹ لیکر مسندحکومت میںآیا ہے وہ بھی اپنی حکومت میں گھس بیٹھیوں کے معاملات پر بات کرنے سے قاصر ہے۔ حالیہ 122 کے نقصان نے وزیر اعظم کیلئے سنگین مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ایندھن کا بحران آئیگا وہ اٖضافی مشکل ہے ۔ ہمارے درآمد کردہ ماہرین کی جب بھی اقتصادیات پر بات ہو ، مہنگائی ، بے روزگاری کاسبب کرونا کو قرار دیا جاتا ہے۔یہ اب اچھا بیانیہ بن گیاہے ۔ جبکہ اس کروناء پر تو موجودہ حکومت نے خاطر خواہ قابو پایا ہے جسکی دنیا تعریف کررہی ہے اس دوران سائوتھ ایشاء جس میںپاکستان بھی شامل ہے مہنگائی کی شرح کچھ یوں ہے بھارت7.61 فیصد، افغانستان 2.3 % ، نیپال 6.0 , بھوٹان 3.8 فیصد، سری لنکا 5.0 فیصد، بنگلہ دیش 5.6فیصد اور پاکستان 8.3 فیصد ہے۔یہ ہمارے درآمد شدہ ماہرین کی مہربانی ہے ۔ دوائوں کا اسکینڈل پرانا ہوچکا ہے صرف وزارت سے برطرفی کافی نہیں تھی، مگر اب حالیہ LNG معاملے پر وزیر اعظم کوتوجہ دینا ضروری ہے ۔ حزب اختلاف شور مچائے گی کروناء sop انکا مسئلہ نہیں۔ یہ بھی پتہ کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ یہ حزب اختلاف کو کس نے کھولا ہے ؟؟
کھونٹے سے بندھی اپوزیشن کھل گئی
Dec 10, 2020