ایرانی جوہری سائنسدان کا قتل  اور مشرقِ وسطیٰ پر اثرات

Dec 10, 2020

وجیہہ الدین خان

ایرانی وزارت دفاع کے شعبہ تحقیق کے سربراہ محسن فخری زادے ایک قاتلانہ حملے میں 27نومبر 2020 کو جاں بحق ہو گئے ۔ محسن فخری زادے ایران میں ایرانی نیو کلیئر پروگرام کے سربراہ کے طور پر جانے  جاتے تھے۔ محسن فخری زادے کو شہرت اس وقت ملی جب اسرائیلی وزیر نیتن یاہو نے 2018 میں  اپنی تقریر  کے دوران ایران کو متوجہ کرتے ہوئے  کہا تھا کہ محسن فخری زادے کو  نہ بھولنا۔ جس کو اسرائیل کی  جانب سے ایک شدید نوعیت کی دھمکی تصور کیا جا رہا تھاکیونکہ ماضی میں 2010 سے 2012 کے درمیان چار مشہور ایرانی جوہری سائنسدان مختلف واقعات میں جاں بحق ہو چکے تھے۔ ایران ان سائنسدانوں  کی ہلاکت  کی ذمہ داری اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد پر ڈالتا  رہا ہے۔ 
اس وقت ایرانی  جوہری توانائی کے سربراہ کے قتل کو انتہائی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس قاتلانہ حملہ سے چند روز قبل ایک خبر گردش کرتی رہی ہے کہ امریکی وزیر دفاع مائیک پومیو،  سعودی و لی عہد اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان سعودی عرب کے شہر ''نوم'' میں ملاقات ہوئی ہے ۔ جس کی تصدیق اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی   کی تھی مگر سعودی اعلیٰ حکام اس ملاقات کی تصدیق کرنے سے کتر ا رہے ہیں۔
ایرانی حکومت کے مطابق موساد کا یونٹ ’’کڈون‘‘  ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادے کو ایران کے شہر تہران کے نزدیکی قصبہ’’ایساد‘‘ میں قتل کا ذمہ دار ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ایرانی سائنسدان کو خود کار ہتھیاروں کے ذریعے قتل کیا گیا ہے۔ سڑک کے نزدیک ٹرک موجود تھے جن پر خود کار ہتھیار نصب تھے جب ایرانی سائنسدان  محسن فخری زادے کی کار ٹرک کے قریب سے گزرنے لگی تو ان کی کار پر فائر کیے گئے۔ سنسر شدہ آواز کو محسن فخری زادے کار کی خرابی سمجھ کر باہر آگئے۔  ان کے ساتھ محافظ بھی  موجود تھے جو کہ گولیوں کا شکار بنے۔ 
اس حملہ کو امریکی صدارتی انتخاب جیتنے والے امیدوار جوبائیڈن نے ایران اور امریکہ کے درمیان روابط کے لیے انتہائی مہلک اور مشکل قرار دیا ہے۔ خیال  رہے کہ موجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جو ہری تعاو ن کا معاہدہ ترک کر دیا تھااور ایران پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں نافذ کر دی  تھیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر سخت اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی کرنسی کی قدر تیزی سے گری جبکہ ایران اس وقت کرونا وائرس کی  بیماری سے بھی  نبرد آزما ہے۔ یورپی  ممالک اور روس کی تنقید  کے باوجود امریکہ اپنے فیصلہ پر قائم رہا۔ مبصرین کے مطابق اس کی وجہ سعودی عرب اور اسرائیل کوخوش کرنا قرار دیا جا رہا تھا۔ جوبائیڈن آئندہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ کی بحالی کے حامی ہیں اور امریکی صدارتی مہم کے دوران جوبائیڈن بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایران اور امریکہ کے  درمیان جوہری معاہدہ کی بحالی سے ایران کو  جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکتا ہیجو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگرچہ جوبائیڈن امریکی صدارتی الیکشن جیت چکے ہیں مگر وہ صدارت کا حلف 20جنوری 2021 کو اٹھائیں گے۔ اس سے قبل تمام فیصلے اور صدارتی منصب ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کی ہی  مرہون منت ہے۔ عالمی مبصرین کے مطابق اس وقت جوہری سربراہ سمجھے جانے والے سائنسدان کا قتل ایران اور امریکہ  میں تعلقات کو کشیدہ کرنا ہے تاکہ مستقبل قریب میں امریکہ اور ایران دوبارہ جوہری تعاو ن کے  معاہدہ  میں داخل نہ ہو سکیں۔ 
اگرچہ ایرانی صدر حسن روحانی اسرائیل کو شدید نتائج کی دھمکی دے  رہے  ہیں مگر د وسری جانب انہوں نے واضح کیا ہے وہ بدلہ کیلیے مناسب وقت کاا نتخاب کریں گے۔ اس کشیدہ صورت حال کا اثر خلیجی ممالک کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر  رہا ہے۔ ایک خبر کے مطابق ایران نے متحدہ عرب امارات کو براہ راست نشانہ بنانے کا عندیہ دیا ہے تاکہ اسرائیل اور عرب ممالک کے گٹھ جوڑ سے ایران کے خلاف کاروائیوں کو روکا جا سکے۔ اگر بغور  جائز ہ لیا جائے تو اس وقت بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی  کی جا رہی ہے۔
 امریکہ کا یک طرفہ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری توانائی کے معاہدہ سے نکل جانا بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف  ورزی   ہے جبکہ ایک ملک  کی دوسرے  ملک  کے اندر مداخلت کو بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی  قرار دیا جاتا ہے۔ اقوام متحد ہ کے  قیام میں ایک بنیادی اصول وضع کیا گیا تھا کہ ممالک کے درمیان کشیدہ صورت حال کو معمول پر لایا جائے گا۔ بین الاقوامی قوانین / اصول وضع    کیے جائیں گے اور ان کا احترام کروایا جائے گا۔ موجودہ کشیدہ صورت حال  میں اقوام متحدہ  اور بااثر ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کو احساس کرتے ہوئے مداخلت کرنی چاہیے تاکہ مشرق وسطیٰ میں کشیدہ صورت حال کو معمول  پر  لایا جا سکے۔ 
مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا کیونکہ ایران کی مشرقی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے سعودی عرب سے بھی  دیرینہ تعلقات ہیں اور پاکستان ہمیشہ سے حرمین شریفین  کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری قرار دیتا رہا ہے۔ ضرورت پڑنے پر پاکستانی افواج نے  حرمین شریفین(خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ)کی حفاظت کی ذمہ داری بخوبی سرانجام دی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات اور روابط کااثر پاکستانی خارجہ پالیسی پر ہو گاکیونکہ پاکستانی خارجہ پالیسی کے مطابق پاکستان اسرائیل کو اس وقت  تک ہر گز تسلیم نہیں کرے  گا جب تک کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقے  خالی نہ کر دے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مشرقی  وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات مزید مضبوط بنائے اور پارلیمانی و تجارتی وفود کا تبادلہ کرے  تاکہ موجودہ صورت حال کے پاکستان پر کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔ 

مزیدخبریں