س ۔ عام زندگی میں آپ نے بیگم کلثوم نواز کو کسی بہو پایا۔
بیگم شمیم اختر۔میں تو دعا کرتی ہوں جن لوگوں نے اپنے بیٹوں کی شادیاں کرنی ہیں انہیں کلثوم جیسی عادتوں والی بہو ملے۔
س۔ انہیں بہو بنانے کا فیصلہ آپ نے کیا تھا یا میاں شریف صاحب نے۔
بیگم شمیم اختر۔ان کے والد ڈاکٹر حفیظ صاحب سے ہماری خاندانی تعلقات تھے۔ ملنا ملانا تھا۔ وہ ہمیں ہر لحاظ سے اچھی لگیں۔ پھر نواز کی ان کے بھائی لطیف سے دوستی بھی تھی۔
س۔ بیگم کلثوم نواز کو بہو بنانے پر آپ کو کبھی پچھتاوا ہوا۔
بیگم شمیم اختر۔میںنے کہا نا کہ میں سب کو ایسی بہو ملنے کی دعا کرتی ہوں۔
س۔ ساس بہوکا بڑا نازک رشتہ ہوتا ہے کبھی کبھی اختلاف رائے تو ہوتا ہوگا۔
بیگم شمیم اختر۔ کوئی یقین کرے یا نہ کرے۔ ہم میں کبھی بھی کوئی اختلاف ر ائے نہیں ہوا۔ وہ بہت سمجھدار ہیں۔ ان کی شادی کو جتنا عرصہ گزرا ہم ایک جگہ پر رہے ہیں۔ آج بھی اکٹھے رہ رہے ہیں۔ میاں صاحب (میاں شریف) نے ایسے اصول بنائے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے سے اختلاف کی نوبت نہ آئے۔ گھر کا بہت اچھا سسٹم ہے۔ میاں صاحب نے ہر ایک کا دائرہ کار مقرر کیا ہوا ہے ۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی کسی بہو پر نکتہ چینی کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ سب اپنے دائرہ کار میں رہتی ہیں۔ دوسرے میری سوچ یہ ہے کہ میںنے جو اپنی بیٹی بیاہ کر دی ہوئی ہے تو میں بھی کسی کی بیٹیاں لے کر آئی ہوں۔ الحمد اللہ ہمارے گھر میں اس حوالے سے سکون رہا ہے۔ میں ان کا خیال کرتی ہوں اور وہ میرا احترام کرتی ہیں۔
س۔ آپ کو بیگم کلثوم نواز کی کون سی عادتیں پسند اور کون سی ناپسند ہیں۔
بیگم شمیم اختر۔ مجھے ان کی تمام عادتیں پسند ہیں۔ ان کا ہمارے ساتھ ادب کا رشتہ ہے۔ ہمیں ماں باپ کی طرح دیکھنا اور خیال رکھنا۔ ان کی تمام عادتیں میرے معیار کے مطابق ہیں۔ انہوں نے کبھی موقع ہی نہیں دیا کہ ان سے اختلاف کروں۔
س۔ بیگم کلثوم نواز کنجوس ہیں، کھلے دل کی مالک ہیں یا کفایت شعار ہیں۔
بیگم شمیم اختر۔وہ کنجوس بالکل نہیں ، کھلے دن کی مالک ہیں البتہ کفایت شعار ضرور ہیں۔ سادگی پسند ہیں۔ ضرورت مندوں کیلئے دل کھول کر خرچ کرتی ہیں۔
س۔ میاں شریف صاحب کی بہت زیادہ اصول پسندی بطور شریک حیات کبھی آپ کیلئے الجھن کا باعث بنی۔
بیگم شمیم اختر۔شادی کے بعد ہر لڑکی یا عورت کو ایک نئے ماحول کا سامنا ہوتا ہے۔ اتفاق سے میرے والد بھی ڈسپلن کے پابندتھے۔ اس لئے مجھے کچھ زیادہ نیا پن محسوس نہیں ہوا۔ پھر مجھے گھر سے نصیحت تھی جہاں جا رہی ہو وہاں کے طور طریقے ہی اختیار کرنا ۔ الحمد اللہ ہماری تینوں بہنوں نے بھی اس پر عمل کیا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
س۔ بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کے دوران آپ ان کے داماد کیپٹن صفدر کے کردار کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔
بیگم شمیم اختر۔صفدر داماد نہیں، بیٹوں سے بڑھ کر کردار ادا کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے اپنی جدوجہد میں کلثوم بیٹوں کی کمی محسوس نہیں کر رہی ہیں۔
س۔ کیا یہ درست ہے مریم میاں شریف صاحب کی بہت لاڈلی پوتی ہیں اور ان کے تمام تر رعب و دبدبہ کے باوجود وہ ان سے ایسی گفتگو کر لیتی ہیں اور ایسی ضدیں منوا لیا کرتی ہیں جو بیٹوں کیلئے بھی ممکن نہیں۔
بیگم شمیم اختر۔وہ سب ہی کی لاڈلی ہے ۔ ہماری فیملی میں وہ پہلی بچی تھیں اس لئے سب کی آنکھ کا تارا بنیں۔ یہ درست ہے اس کی ہر خواہش کو میاں صاحب پورا کرتے ہیں۔ وہ کبھی اپنے بیٹوں کیلئے نہیں گئے مگر مریم کو کالج میں داخل کرانے لے گئے تھے۔
س۔ آپ کے تینوں بیٹوں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور میاں عباس شریف میں سے سب سے زیادہ ڈانٹ کس نے کھائی اور کیوں؟
بیگم شمیم اختر۔ مجھے یاد نہیں میںنے اپنے بچوں کو کبھی ڈانٹا ہو۔ تینوں نے اپنے والد کے سخت ڈسپلن میں پرورش پائی (قدرے ہنستے ہوئے)پھر سب کے ساتھ تو شریف لگا ہوا ہے البتہ صبح نماز کے وقت میں پابندی ضرور کرتی تھی۔ انہیں فجر کی نماز کیلئے اونچی آواز میں اٹھایا کرتی تھی۔
س۔ بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کے دوران اور جب آپ کے دونوں بیٹے قید میں ہیں جنرل مشر ف کیلئے قدرتی طورپر آپ کے جذبات کافی سخت ہوسکتے ہیں۔
بیگم شمیم اختر۔میں جنرل مشرف کیلئے ہدایت کی دعا کرتی ہوں۔ جس وقت جنرل مشرف ہمارے گھر آئے اور ہم ایک ساتھ عمرے پر گئے تو یہی سمجھا جا رہا تھا کہ ان کے ساتھ حکومت بہت اچھی طرح چلے گی اور جنرل مشرف فوج کا بھی خیال رکھیں گے۔
س۔آپ کے بقول بیگم کلثوم نواز سیاسی و ملکی معاملات پر نظر رکھتی تھیں۔ اس حوالے سے ان کا ردعمل کیا تھا۔
بیگم شمیم اختر۔جیسا کہ پہلے کہا وہ بہت سمجھدار ہیں۔ انہوںنے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فوراً ٹی وی پر قوم سے خطاب کریں اور اسے اعتماد میں لیں کہ کس طرح یہ ایڈونچر ہوا ہے دوسرا مشورہ کلثوم نے یہ دیا تھا کہ واشنگٹن تنہا نہ جائیں بلکہ جنرل مشرف کو ساتھ لے کر جائیں ورنہ سارا ملبہ آپ پر گرے گا لیکن نواز شریف نے یہ مشورے نہیں مانے اور کہا کہ اس طرح فوج پر حرف آئے گا۔ میں سمجھتی ہوں نواز نے یہ مشورے نہ مان کر فوج کی عزت تو بچالی مگر خود کو مصیبت میں ڈال دیا۔
س۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شر یف جیل میں ہیں۔ ان کے انجام کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔
بیگم شمیم اختر۔انشاء اللہ میرا رب بہتر کرے گا۔ میں پچھلے دنوں عمرے پر گئی تھی۔ حضرت امیر حمزہؓ کے مزار پر حاضری دی۔ سلام پیش کیا اور دعا کی میرے بچے بے گناہ ہیں۔ یہ قبولیت کا مقام ہے۔ روضہ رسولؐ پر جا کر التجا کی۔ خانہ کعبہ میں رو کر دعا کی اور اس یقین کے ساتھ واپس آئی ہوں ۔ میرا اللہ میرے بچوں کی حفاظت کرے گا اور اس مشکل صورتحال سے جلد نجات پائیں گے۔
(ختم شد)
نواز شریف کی والدہ کا پہلا اور آخری انٹرویو
Dec 10, 2020