امریکہ بہادر کو اچانک یہ خیال آیا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے اور اس کے محکمہ خارجہ نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شاید پاکستان میں لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ پر ہی ایک رپورٹ بننی چاہیے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے اس محکمہ خارجہ کو یہ معلوم کیسے ہوا کہ پاکستان میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے اور یہاں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے حوالے سے یا مذہبی عقائد کے حوالے سے یا مذہبی عبادات کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ بھی ان حالات میں کہ جب امریکہ میں خود لوگوں کو مذہب پر پابندی تو دور کی بات ان کا جینا ہی دشوار ہے۔ اب بلیک لائیوز میٹر کی مہم کو دیکھیں تو یہ کہنا کتنا مشکل رہتا ہے کہ امریکہ میں تو سیاہ فاموں کے لئے زندہ رہنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ ان حالات میں جب خود امریکہ میں لوگوں کو رنگ و نسل کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے اور وہ ملک پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتا پھر رہا ہے۔ اس رپورٹ کو بغیر پڑھے بغیر سنیں مسترد کرنے کے علاوہ اس کی مذمت کرنے کے علاوہ اور اس عمل کی کی کھلی تنقید کرنے کے علاوہ کسی کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو کسی حوالے سے کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش ہو ہی نہیں سکتا۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے یہاں سکھ رہتے ہیں یہاں ہندو رہتے ہیں یہاں عیسائی رہتے ہیں یہاں پارسی رہتے ہیں یہاں اس کے علاوہ کئی مذاہب کے لوگ اپنی اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے روزمرہ کے معمولات میں ان کا مذہب قطعاً رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ ان تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آگے بڑھنے کے اتنے ہی مواقع حاصل ہیں جتنے کے کسی مسلمان کو حاصل ہیں۔ بلکہ کئی ایسے واقعات ہیں مسلمانوں نے اپنی جگہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے چھوڑی ہے۔ مذہبی رواداری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ کوئی مبالغہ آرائی شامل ہے بلکہ یہ زمینی حقیقت ہے کہ پاکستان تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک نہایت شاندار ملک ہے۔ یہاں جتنی مذہبی رواداری یا مذہبی برداشت پائی جاتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ مذہبی رواداری اور مذہبی برداشت آپ کو نظر آئے۔ باوجود اسکے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں مذہب کے حوالے سے جتنی آزادی ہے یہ مسلمانوں کی وسیع سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسلمان اتنے ہی کشادہ ذہن اور کھلے دل کے مالک ہیں جتنے کے امریکہ میں بسنے والے عیسائی مذہبی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ بلکہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کے معاملے میں شاید امریکہ انگلینڈ کینیڈا جرمنی فرانس ہالینڈ جاپان چین چین روس اور دنیا کے دیگر بڑے ممالک سے زیادہ تحمل برداشت اور مذہبی رواداری رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کچھ اور ہیں جس وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور دنیا پاکستان کو مختلف انداز اور مختلف نظر سے دیکھتی ہے ہے ہے۔ اگر مذہبی رواداری کے حوالے سے پاکستان کا موازنہ دنیا کے بہترین ممالک کے ساتھ غیر جانبداری سے کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے لوگ مکمل آزادی سے زندگی گزارتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کو معاشی طور پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہے پاکستان کے ایسے دشمن اور شیطان صفت ہمسائے پائے جاتے ہیں جو پاکستان کو ہدف بنانے کے لیے ہر وقت تخریب کاری کرتے رہتے ہیں اور وہی عناصر پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بناتے ہیں اور اسے منفی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں تو یہ سراسر جھوٹ ہے اس میں کسی قسم کی کوئی حقیقت ہے ہم تو دل سے آج تک عیسائیوں بلکہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے اتنا ہی نرم رویہ رکھتے ہیں جتنا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے رکھتے ہیں۔ کیونکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اس حوالے سے نہایت واضح خیالات رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی تقاریر میں اس چیز کو واضح کر دیا تھا پاکستان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو مکمل آزادی حاصل ہو گی۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کو اگر فرصت ملے تو وہ اپنے محکمہ داخلہ سے بات چیت کرے اور ان سے پوچھے کہ امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر کی مہم کہاں تک پہنچی ہے اور اس مہم کے آغاز کی وجہ کیا تھی کیا امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام اتنے ہی آزاد و خودمختار ہیں جتنا کہ سفید فام ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور اگر امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے تو کیا یہ ان کے مذہب میں رکاوٹ نہیں ہے۔ لوگوں کو ان کے رنگ کی بنیاد پر نفرت کا نشانہ بنایا جائے اور ان کے راستے روکے جائیں اور سب سے بڑھ کر سب سے بڑا ظلم یہ کیا جائے کہ ان سے جینے کا حق چھین لیا جائے۔ کیا ان حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے یکساں زندگی گزارنے کے مواقع موجود ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اگر گورے اور کالے برابر نہیں ہیں تو پھر امریکہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد مکمل طور پر ازاد و خودمختار ہیں۔
پاکستان یہ بڑے وثوق کے ساتھ اور بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہاں بسنے والے تمام افراد خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں کسی بھی رنگ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں انہیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارے مسائل کچھ اور ہیں، ہم مالی طور پر کمزور ہیں، قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہیں لیکن ہمارے اندر یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی کہ ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے بلکہ پاکستان کے امن کے دشمن یہاں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دشمن اس پر بھاری سرمایہ خرچ کرتا ہے جتنی بین المذاہب ہم آہنگی پاکستان میں پائی جاتی ہے اور جتنی بین المسالک ہم آہنگی پاکستان میں پائی جاتی ہے شاید ہی اس کی دنیا میں کہین مثال ملتی ہو۔ ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ مختلف مسالک کی تعلیمات کے ذریعے روزمرہ کے معمولات اور مذہبی عبادات ادا کرتے ہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں شاید ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بیک وقت ایک ہی جگہ پر ایک جھنڈے تلے شاید ہی جمع ہوں۔ یہ پاکستان کا حقیقی حسن ہے جہاں اہل سنت بریلوی بھی ہیں اہلحدیث بھی ہیں دیوبند بھی ہیں اہل تشیع بھی ہیں اور دیگر مسالک کے لوگ بھی ہیں اور سب ایک دوسرے کا نہایت احترام بھی کرتے ہیں ایک دوسرے کی رائے کی قدر کرتے ہیں ایک دوسرے کے خیالات کو تسلیم کرتے ہیں ایک دوسرے کی بات کو سنتے ہیں ہیں اور جب آپ بین المسالک ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو نظر انداز کر دیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ خالصتا تعصب اور تنگ نظری پر مبنی ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ان کو اعتراض یقینا کسی اور بات پر ہے اور وہ بات بھی واضح ہے یہ سارے تانے بانے ختم نبوت کے قانون سے جڑے ہوئے ہیں اور اس بارے میں دنیا کا کوئی بھی ملک ہو اس کا کوئی دباؤ قابل قبول نہیں ہے۔اس حوالے سے پاکستان میں بسنے والے لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پڑھنے والے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے بلکہ یہی ہمارا ایمان ہے کیونکہ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن الرسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شیء علیما اس کے بعد کسی دوسری رائے کی کسی دوسری دلیل کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ سمیت وہ تمام ممالک جو پاکستان میں یہ نفرت اور پرانے فتنے کی سرپرستی کرنا چاہتے ہیں انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ پاکستان کے غیور بہادر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان مال اولاد سے بڑھ کر محبت کرنے والے مسلمان کبھی بھی نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پاکستان کا ہر مسلمان ختم نبوت کا محافظ ہے وہ کسی کو اس پر ڈاکہ ڈالنے کی کوئی اجازت نہیں دے گا اور اس سلسلے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کو فرانس کا شیطان تو نظر نہیں آتا اسے کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام تو نظر نہیں آتا اسے کشمیریوں کا خون تو نظر نہیں آتا اسے فلسطینیوں کا خون تو نظر نہیں آتا لیکن اسے پاکستان میں ایک جھوٹی اور خود ساختہ سوچ فتنہ پرور سوچ اور من گھڑت کہانیاں ضرور نظر آ جاتی ہیں۔ اگر یہ محکمہ خارجہ اتنا ہی باخبر اور غیر جانبدار ہے تو پھر بھارت میں سکھوں کے مظاہروں کو دو ہفتے گزر چکے ہیں اس پر کوئی رپورٹ کیوں جاری نہیں کی جا سکی اور اگر یہ محکمہ خارجہ اتنا ہی غیر جانبدار ہے تو 5 اگست 2019 سے آج تک کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو ان کے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے اور ان کو رمضان المبارک کے دوران بھی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں تھی مسجد جانے کی اجازت نہیں تھی محرم اہل تشیع کو جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں نماز پڑھنے سے روکا گیا حتیٰ کہ نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی کیا یہ چیزیں مذہبی رکاوٹوں کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر امریکی محکمہ خارجہ اپنی رپورٹ مرتب کرنے میں غیر جانبدار ہے تو پھر اسے بھارت میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم پر بھارت میں سکھوں پر ہونے والے مظالم اور اسے بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بھی ایک رپورٹ ضرور مرتب کرنی چاہیے۔ اگر امریکی محکمہ خارجہ یہ نہیں کرتا تو پھر اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ یہ سب چیزیں صرف اور صرف مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کی جاتی ہیں یہ چیزیں صرف اور صرف کشمیر کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ یہ چیزیں صرف اور صرف فلسطین کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کی جاتی ہیں یہ چیزیں صرف اور صرف دنیا میں موجود ہر اس مسلم ملک کو جسے امریکہ کو اور اس کے حواریوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اسے نشانہ بنانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ کاش کہ یہ محکمہ خارجہ تعصب کی عینک اتار کر رپورٹ مرتب کرے اور اسے نریندرا مودی کا ہندوتوا نظر آئے اسے دہشت گردی مودی اور فرانس کے شیطان کی مسلم دشمنی نظر آئے اور یہ تنگ نظر محکمی خارجہ مسلمانوں کے خلاف مظالم پر بھی بولے۔