عاشقانِ رسولؐ اور ان کے سرپرستوں کے نام

جو فصل گزشتہ چھ د’ائیوں سے مسلسل بوئی گئی ہے اب وہ پک کر تیار ہے تو پریشانی کیسی اور پچھتاوا کیا۔ دینی مدارس تو اس خطے میں صدیوں سے دین کی آبیاری کرتے آ رہے تھے فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرف سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے تربیت یافتہ سیاستدانوں کے خلاف ایبڈو کا قانون نافذ کرکے انہیں سیاست سے بے دخل کیا گیا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ سیاسی اور عوامی حمایت حاصل کی جائے۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسٹیبلشمنٹ اور دینی مدارس کے درمیان روابط قائم ہوئے اور سرکاری طور پر مدارس کی امداد کی گئی۔ یہ تعلقات ضیاء الحق کے دور میں بہت زیادہ مضبوط ہو گئے۔ پاکستان میں 1951ء ہی سے سازشیں عروج پر تھیں اور لیاقت علیخان کے قتل کے بعدکراچی سازشوں، جوڑ توڑ اور اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہو چکا تھا۔ عین اسی سال بھارت میں جواہر لال نہرو انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا سنگِ بنیاد رکھ رہے تھے اور یہ وہی انسٹیٹیوٹ ہے جس کے فارغ التحصیل آج دنیا بھر میں اہم عہدے سنبھالے ہوئے بھرپورانداز میں پاکستان دشمنی پر اُترے ہوئے ہیں۔ 
بھارت تعلیم سستی اور عام کرتا گیا اور ہم نے ادھر تعلیم کو مافیا کے حوالے کر کے غریب اور متوسط طبقے پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے طالب علموں کیلئے فنی تعلیم کے ادارے بنائے اور ملک بھر میں گورنمنٹ کمپری ہینسو ہائی سکول بھی قائم کیے جہاں فنی تعلیم ہر طالب علم کیلئے لازمی قرار پائی۔ طالب علموں کیلئے بین الاضلاعی روٹوں پر کرائے میں 50 فیصد رعایت اور سٹی ٹرانسپورٹ سروس کیلئے بھی سٹوڈنٹ کارڈدکھا کر کوئی بھی طالبعلم دس پیسے اور بعد میں 25 پیسے دیکر سفر کر سکتا تھا۔ آج سرکاری تعلیمی ادارے دم توڑ چکے ہیں اور اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے سرکاری یونیورسٹیوں نے بھی سیلف فنانس سکیمیں شروع کر دی ہیں۔ آج سے40 سال قبل چھ سات بچوں کا باپ بھی اپنی اولاد کو سستی اور اچھی تعلیم دے سکتا تھا لیکن آج اس کیلئے دو بچوںکو بھی تعلیم دلوانا اضافی اور ناجائز آمدن کے بغیر ممکن نہیں رہا۔ حکومت میں موجود لوگ اپنی ذات اور مفادات کے حصار سے باہر نکلیں، سروے کرائیں تو انہیں پتہ چلے کہ ایسے لاکھوں والدین ہیں جن کے ایک ہی گھر کے ایک دو بچے سکول جا رہے ہیں تو باقی دینی مدارس میں ، کہ والدین آج کے دور میں سب بچوں کی یکساں تعلیم کے اخراجات افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ کیا اس طرح سے ہر گھر سے مخالف سوچ اور نظریات پروان نہیں چڑھ رہے۔دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں حکمرانوں نے دینی مدارس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال تو کیا مگر کبھی بھی ان کی اصلاح‘ اپ گریڈیشن اور ترقی بارے توجہ نہ دی کہ غاصب حکمرانوں کو تعلیم یافتہ معاشرہ کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ جہاں ایک طرف حکومت کے پاس تعلیمی اداروں کو دینے کیلئے فنڈز نہیں وہیں دوسری طرف دینی مدارس کی عمارات اتنی شاندار بن رہی ہیں کہ تمام تر توجہ اب ایمان سے شان کی طرف منتقل ہوتی جا رہی ہے۔ 
یہ کسی دور افتادہ دیہات کا واقعہ نہیں شیر شاہ روڈ ملتان میں ایک زیر تعمیر مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے جانے کا اتفاق ہوا تو امام صاحب ایک انتہائی متنازعہ مسئلہ پر رائے زنی فرما رہے تھے، مجھ سے رہا نہ گیا کہ میں نے اس معاملے پر جید علمائے کرام کو سن رکھا تھا میں نے ان سے حوالہ کتاب اور ریفرنس پوچھنے کی جسارت کر لی تو ایک باریش بزرگ اگلی صفوں سے اٹھ کھڑے ہوئے کہنے لگے تم جیسے داڑھی منڈے کو سوال کرنے کا کیا حق ہے۔ تمہیں دین کا کیا علم اور بس پھر دو چار لوگوں کا مزید حوصلہ بڑھ گیا اور لگے مجھے کلام بخشنے۔ میں نے جان چھڑانے کیلئے انہی کے مکتبہ فکر کے ایک عالم دین کا نام لیکر کہا کہ یہ مسئلہ ان کے پاس لے چلتے ہیں تو جان خلاصی ہوئی۔ 
19 سال پرانی بات ہے لودھراں سے میرے دوست ملک عطاء اللہ اعوان نے اطلاع دی کہ نواحی قصبے واہی ویگہ مل کی قریبی بستی میں امام مسجد نے بیک وقت 13 خواتین کو طلاق دلوا دی اور 29 بچوں کو بے آسرا کردیا۔ کئی سال قبل گلبرگ لاہور کے علاقے میں ایک معروف کاروباری پلازے میں جھگڑا ہوا جو کہ کسی قادیانی کے کسی جملے کے بعد شروع ہوا ‘ مارکیٹیں بند ہو گئیں اور تمام شرکاء نے لبرٹی چوک تک احتجاجی جلوس نکالا۔ اذان عصر سے تھوڑی دیر پہلے شروع ہونے والا یہ احتجاج نماز مغرب کے بعد تک جاری رہا اور اس دوران سینکڑوں افراد نعرے لگاتے رہے۔ ’’غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں‘‘ میں بھی وہیں موجود تھا چند گنتی کے افراد ہی نے ان دونوں اذانوں کے جواب میں لبیک کہہ کر جلوس سے علیحدگی اختیارکی اور نماز ادا کی۔ یہ دونوں نمازیں اس عظیم ترین ہستی کے عاشقوں نے قضا کیں جن کا فرمان ہے کہ نماز مسجد میں جا کر باجماعت ادا کریں اور نماز کے حوالے سے سختی سے ہدایت متعدد بار کی اور پھر قرآن مجید میں بھی تو بارہا نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی پاکؐ کی غلامی تو صرف اور صرف عمل سے ہو سکتی ہے نعروں سے نہیں۔ نبی کریمؐ نے تو صلح حدیبیہ بھی کی تو زیادہ تر شرائط کفار کی مان لی تھیں اور وقت نے ثابت کیا کہ اسی میں حکمت تھی۔ 
سیالکوٹ واقعہ بھی دین سے دوری اور مکمل لاعلمی کا شاخسانہ ہے، ہم پاکستانی دنیا بھر کو کیاپیغام دے رہے ہیں اس طرح سے ہم کفارکے دعوئوں اور پراپیگنڈے کی غیر ارادی طور پر تصدیق کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ سیالکوٹ سانحہ کے تمام ملزمان کو کیمرے کے سامنے لائے اور فرداً فرداً دین اسلام کے بارے بنیادی سوال پوچھے‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کچھ بھی کہہ لیں مگر جنرل پرویز مشرف نے دینی مدارس کو پاکستان کے تعلیمی نیٹ ورک میں لا کر یکجا کرنے کی بہت کوشش کی تھی مگر اس کوشش میں رکاوٹ بھی دینی مدارس سے متعلقہ لوگ ہی بنے۔
میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ سانحہ فیصل آباد ہو گیا۔ واقعہ میں گرفتار شدگان یقینی طور پر مسلمان گھرانوں سے ہوں گے کسی مسجد سے قرآن مجید بھی پڑھا ہو گا کسی ماں کی گود سے تربیت بھی ضرور لی ہو گی مگر جو پڑھا اور جس قسم کی تربیت لی وہ سب آشکار ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن