سیالکوٹ میں ہونے والے اندوہناک واقعہ کی ہرمکتب فکر، ہر شعبۂ زندگی اور ہر سطح پر مذمت کی گئی ہے اور مذمت کے ساتھ ذمہ داران کے خلاف قرار واقعی سزا دینے کے مطالبات کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔
گزشتہ روز آرمی چیف کی زیر صدارت ہونے والی کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی مذکورہ واقعہ کا نوٹس لیا گیا اور ملوث افراد کے خلاف بلالحاظ سخت کارروائی کا اعادہ کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک سے انتہا پسندی ، دہشت گردی کے خاتمے کا عزم بھی کیا گیا۔ اس سے پہلے سیالکوٹ ہی میں 2 بھائیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ہر طبقۂ فکر کی طرف سے اس واقعہ کی مذمت اور ملوث عناصر کے خلاص سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں سسٹم کی کمزوری کے باعث ملزمان قرار واقعی سزائوں سے بچ گئے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر واقعات میں بھی گرفتار کیے جانے والے کسی بھی ملزم کو نشانِ عبرت نہیں بنایا جا سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس قسم کے واقعات اب بھی رونما ہو کر ہمارے نظام انصاف ، گورننس اور سماج کی بے حسی کا منہ چڑانے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر دہشت گردی ، انتہا پسندی کے واقعات کا حقیقی معنوں میں نوٹس لے کر ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا ہوتا اور ان واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ ٹھوس اقدامات کیے جاتے تو ایسے واقعات دوبارہ ہو پاتے۔ سیالکوٹ کے واقعہ نے ایک بار پھر ہماری انتظامی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے اور ریاست کی رٹ ، ناقص طرزِ حکمرانی ، نظامِ انصاف میں کجی اور سب سے بڑھ کر مِن حیث القوم ہماری اخلاقیات اور کردار پر سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ توڑ پھوڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ مادہ پرستی اور زراندوزی میں اندھے سماج میں اب ہماری ملی اور مذہبی اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ریاست، حکومت ، متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ ہمارے وہ طبقات جو نژادِ نو کی تربیت کے لئے مکلّف تھے اپنے اپنے فرائض سے اغماز برتنے کے جرم میں برابر کے شریک ہیں اور روز بروز تنزلی کی طرف محوِ سفر ہیں۔ نہ معلوم پستی کا یہ عمل کب اور کہاں جا کر رُکے گا لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ ہم نوشتہ دیوار کو پڑھیں اور اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کریں۔ اصلاحِ احوال کے لیے اٹھایا گیا ہر قدم ہمیں مزید کسی بڑے سانحے اور حادثے سے روکنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف عساکرِ پاکستان کی وہ کاوشیں ہیں جن کی بدولت ملک دہشت گردی کے واقعات سے بہت حد تک محفوظ ہو چکا ہے۔ ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد کے نام سے جو آپریشن کیے گئے ۔ بلاشبہ ان میں بہت سی قیمتی جانوں کے نذرانے دئیے گئے۔ جانی و مالی نقصانات کے بعد کہیں ہم اس قابل ہوئے کہ اب دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم ہو چکے اور ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اب سیالکوٹ ایسے واقعات کے خاتمے کے لیے بھی ہمیں اسی عزم بالجزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ محض مذمتی بیانات سے بات نہیں بنے گی۔
کمانڈرز کانفرنس میں سیالکوٹ واقعہ کا نوٹس
Dec 10, 2021