میں جس معاشرے میں رہ رہا ہوں یہاں جہالت، عدم برداشت، شدت پسندی، انتہا پسندی،سماجی نا انصافی، جذباتی و نفسیاتی امراض کا دور دورہ ہے۔ ان منفی رحجانات کے عملی مظاہرسیہماری تاریخ کے اوراق لتھڑے ہوئے ہیں ۔ قومیں تغیر پزیررہ کر معاشرتی بگاڑ کو ختم کرتی ہیں ، ہر کجی کو سیدھا کیا جاتا ہے،ایک جاہل معاشرہ ہی مہذب معاشرے کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ علم البشریات anthropologyکے مطابق بہترین انسانی اقدار کے لیئے کوشاں ہوناانسان کی جبلت میں شامل ہے ہر انسان چاہے وہ جس معاشرے کا بھی فردہو۔ انسانیت کے جبلتی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور طبعی میلان بھی۔پھر ایسا کیوں ہے کہ ہماے معاشرے میں یہ بہترین انسانی اقدار ناپید ہیں ۔ شایدمعاشرے کی بنیاد رکھنے میں غلطی ہوئی ہے، ایک اینٹ بھی ٹیڑھی ہو تو پوری عمارت ہی ٹیڑھی بنے گی۔ جیسا خمیر ہو گا وہی نتیجہ بھی سامنے آئے گا۔ جو بوئیں گے وہی تو کاٹیں گے۔ اب چاہے وہ نفرت کا بیج ہو یا منافقت کا ، سیاسی مصلحت کا یا مذہبی منافرت کا ۔ جہالت کا یا پھر فرقہ بندی کا۔ ایسی ذہر آلود فصلیں خود رو نہیں ہوتیں۔ انکے بیج بوئے جاتے ہیں تب ہی تھور اور زقوم کی فصل کو کاٹنا بھی پڑتا ہے اور اس کے زہر کو کھانا بھی پڑتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہہمایمعاشرے میں ان منفی اقدار اور رحجانات میں کمی ہونے کی بجائے تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ چند دہائیوں میں جو کچھ بویا وہی پودے اب تناور درخت بن گئے ہیں ، ایک جنگل ہے جہاں آگے چلنے کا راستہ بھی معدوم ہے، ہر لحظہ و ہر لمحہ پر خطر ہے، اس جنگل میں نہ صرف درندوں کا خوف ہے بلکہ کھانے کے لیئے بھی زہر آلود فصل ہے۔کوئی چھوٹا کھیت کھلیان ہو تو اسے جڑ سے اکھاڑنا اور زمین میں کسی نعمت کی بوائی کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن تناور درختوں کا جنگل ختم کرنا بھلا کس کے بس کی بات ہے۔بس یہی المیہ ہے میرے معاشرے کا۔ یہاں نہ خدا پر ایمان ہے اور نہ ہی اس کا خوف۔ کوئی بھی کہیں بھی جہالت کے نشے میں انسانیت کے خلاف کوئی بھی جرم کرے ، یقین جانیئے خدا کا خوف تو دور کی بات اسے قانون کا خوف بھی نہیں ہے۔ کسی کی جان لینی ہو یا عزت تار تار کرنا ہو، کسی کا حق مارنا ہو یا خون بہانا ہو ، ہمارے معاشرہ ان جرائم کے لیئے آئیڈیل معاشرہ ہے کیونکہ یہاں جرم کرنے والے کے دل میں نہ خدا ہے اور نہ ہی اس کا خوف، کہتے ہیں رب نزدیک ہے یا مکہ جو آپ کسی کے اوپر تانتے ہیں ۔ لیکن انہیں اس مکے کا بھی ڈر نہیں ۔ سماجی نا انصافی کے ساتھ ساتھ ہمارا کریمینل جسٹس سسٹم بھی ناکارہ ہے، با اثر افراد کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، کوئی اس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ، تب ہی تو سٹریٹ جسٹس کے عملی مظاہرے سامنے آرہے ہیں ۔ عدالتیں سپیڈی ٹرائل نہیں کرتیں ، اس لیئے لوگوں نے خود ہی جائے وقوعہ پر ہی عدالتیں لگا کر فوری اور سستا انصاف دینا شروع کر دیا ہے۔ایسا کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ بے شمار واقعات ہیں جہاں ماورائے عدالت فیصلے ہوئے، خون بہایا گیا، کبھی عزت کا جنازہ نکلا تو کبھی کسی کی عصمت تار تار ہوئی ، کبھی غیرت مندوں نے اپنے گھر کی رحمت کو محض پسندکا اظہار کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا تو کبھی کسی نے اپنی عصمت دری کا بدلہ لینے کے لیئے مجوزہ سزاوں کو چھوڑ کر اپنے سامنے ہی بدلے میں وہی عصمت دری کرواتا ہے، کہیں معصوم بچیوں کو ونی کیا جاتا ہے تو کہیں پھول بننے والی کلی کو مسلا جاتا ہے۔ دور جہالت میں بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا آج بھی اسی جہالت کے زیر اثر زندہ نہیں دفنایا جاتا تو مار کر دفنا دیا جاتا ہے۔مذہب کے نام پر دوکان جمائی جاتی ہے، فروعی اختلافات پر کسی کو واصل جہنم کیا جاتا ہے اور کسی کو جنت کا پروانہ دیا جاتا ہے، دین کے نام پر قتل وغارت گری کرنے والوں کو دفنانے کے بعد بھی مجاوروں کی ایک فوج اپنا قبلہ بنائے رکھتی ہے تاکہ کوئی اور اپنی دوکان نہ بڑھا سکے اور اپنی فرقہ پرستی کی کاروباری اجارہ داری اور تسلط برقرار رہے۔ دین اسلام میں جتنی گراوٹ و ملاوٹ ہمارے ملک و قوم اور معاشرے میں پائی جاتی ہے پورے خطہ عرب میں جسے کے دین کا سرچشمہ مانا جاتا ہے ، جس سر زمین پر دین نہ صرف نازل ہوا بلکہ پروان چڑھا ، اس خطے میں ہمارے معاشرے کی مذہبی تاویلیں و بدعتیں نہ صرف اجنبی ہیں بلکہ ناپید ہیں ۔ مذہبی جہالت و منافقت اور کم علمی و کم فہمی نے ہمارے دین میں ایسی ملاوٹ کی ہے کہ اس کے مضر اثرات مختلف اشکال میںسامنے آ رہے ہیں اور انکا تدارک بھی ممکن نہیں نظر آتا۔ سماجی انصاف کا یہ حال ہے کہ کہیں کوئی اپنے لخت جگر کو فروخت کے لیئے بازار میں لے آتا ہے اور قیمت وہاں بھی نہیں ملتی تو گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے یا پھر دریا میں بہا دیتا ہے۔ اپنے گردے انتہائی سستے داموں بیچنے والوں میں ہمارا معاشرہ اولین نمبر
پر ہے۔ آئین پاکستان میں درج ہے کہ سیکنڈری سطح تک ہر بچے کو لازمی مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہو گی ۔ لیکن ایسے کروڑوں کی تعداد میں بچے ہیں جو جو اپنا بچپن اپنے گھر والوں کی کفالت کے لیئے بیچ رہے ہیں ۔ کھلونوں سے کھیلنے کی عمر والے چھوٹے بچے کسی ظالم استاد کی ورکشاپ میں مظلومیت کی تصویر بنے نظر آئیںگے۔ چھوٹی معصوم بچیاں گھروں میں کام کرتے ہوئے اکثر جسمانی و جنسی تشدد کا شکار ہی نہیںہوتیں بلکہ انکی روح بھی زخمی ہوتی ہے، جب انکا بانکپناور اپنا بچپن غیر لوگوں کے پاس گروی رکھ دیا جاتا ہے۔ ایمان تو اس بات پر ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن پوری انسانیت کے قتل کے لیئے سفاکی ایسی بے مثال ہے کہ ایک جھنڈ، ایک جتھہ، ایک ٹولہ، ایک گروہ، ایک ہجوم پوری ریاست پر بھاری نظر آتا ہے۔ یہ ریاست کا ہیجڑا پن ہے اور حکمرانوں کی سیاسی منافقت کے وہ ان جتھوں ، ٹولیوں ، گروہوں،
جھنڈ اور ہجوم کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں ۔ ویسے تو ریاست کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو اپنی رٹ جیسے تیسے قائم رکھتی ہے۔ لیکن اس کے لیئے مخلصانہ حکمت کی ضرورت ہوتی ہے نا کہ منافقانہ مصلحت کی۔ریاست و حکومت کی نیت میں نفاق ہو گا تو قوم بھی کبھی اپنی ریاست سے مخلص نہیں ہو گی۔ سماجی نا انصافی پر مبنی معاشرے ہمیشہ انارکی و بد امنی کا شکار رہتے ہیں ۔وہاں نا حق خون بہتا رہتا ہے، عصمتیں لٹتی رہتی ہیں ، ظلم روا رہتا ہے تاوقتیکہ پورے معاشرے سے اسکا خراج مانگا جائے۔