ایران پر جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عالمی طاقتوں کا دباو¿ جاری ہے جبکہ اسی تناظر میں امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں سخت کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے بینکوں کو ایران سے کاروبار کرنے سے منع کر دیا۔امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا ایران پر عائد جوہری پابندیوں کو مزید سخت کرنے جا رہا ہے۔ حالیہ جاری امریکا ایران جوہری مذاکرات میں 2015 میں ہوئے معاہدے کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ اگرچہ فریقین ابھی کسی نتیجے پہ نہیں پہنچ سکے ہیں مگر امریکا کی جانب سے ایران پر دباو بڑھانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے اپنے وفد کوایسے وقت میں یو اے ای بھیجنے کا اعلان کیا ہے جب امریکا کا اتحادی یہ ملک علاقائی کشیدگی پرقابوپانے اور ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتربنانے کے لیے کام کررہا ہے۔امریکی وفد میں محکمہ خزانہ کے دفتربرائے غیرملکی اثاثہ جات کنٹرول کی سربراہ آندریا گاکی بھی شامل ہوں گی۔وفد متحدہ عرب امارات کے ان بنکوں کوخبردار کرے گا جن کا ایران کے ساتھ کاروباری لین دین ہےاوروہ پابندیوں کی تعمیل نہیں کر رہے ہیں۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکا کے پاس ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والے بنکوں کی عدم تعمیل کے شواہد موجود ہیں اور بعد میں ان بنکوں کو ان کے معاملات پر پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے یا سزا دی جا سکتی ہے۔اماراتی حکام نے اس اطلاع پرکسی تبصرے سے انکار کیا ہے۔اگرچہ متحدہ عرب امارات ایران کے جوہری عزائم، میزائل پروگرام اور علاقائی گماشتہ مسلح گروپوں کی سرپرستی سے متعلق خلیجی طاقت سعودی عرب کے خدشات کی تائید کرتا ہے لیکن ابوظبی نے ایران کے ساتھ اپنے روابط تیز کردیے ہیں اورگذشتہ پیر کو ایک سینیرعہدہ دار کو تہران بھیجا تھا۔متحدہ عرب امارات کے ایران کے ساتھ کاروباری تعلقات نصف صدی پرپھیلے ہوئے ہیں۔اس نے2018 میں کہا تھا کہ وہ (تب سابق)امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کے جوہری سمجھوتے سے دستبرداری کے بعد ایران کے خلاف پابندیوں کے دوبارہ نفاذ پر مکمل عمل پیرا ہے۔اس جوہری سمجھوتے کے تحت ایران نے بڑی طاقتوں سے اتفاق کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام پرپیش رفت روک دے گا۔مگر امریکا کی جانب سے دوبارہ پابندیوں کے نفاذ کے قریباً ایک سال بعد ایران نے جوہری سمجھوتے کی شرائط کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیارنہیں کرناچاہتابلکہ اس کا جوہری پروگرام پ±رامن مقاصد کے لیے ہے۔امریکا ایران کے ساتھ 2015 میں طے شدہ اس جوہری سمجھوتے کی بحالی کے لیے ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کررہا ہے لیکن ابھی تک ان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق اگرویانا میں مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو امریکا ایران پر اقتصادی دباو سخت کرنے کے لیے کئی دیگر ممالک میں وفود بھیج سکتا ہے۔امریکا کے ایک سینئر عہدہ دار نے کہا کہ توقع کی جارہی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کے دفاعی سربراہان سفارت کاری ناکام ہونے کی صورت میں بدترین حالات کی تیاری کے لیے ممکنہ فوجی مشقوں پر تبادلہ خیال کرنے والے تھے۔اس صورت میں اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے حملہ کرسکتا ہے۔