اسلام آباد(نا مہ نگار)تپِ دق اور ملیریا کے تشویش ناک پھیلائو پر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این آفس فور پروجیکٹ سروسز کے پاکستان میں موجود دفتر کی جانب سے صوبائی سطح پر متعلقہ اداروں سے مشاورت کے لیے ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔تقریب میں پنجاب، خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والے اعلی عہدیداران شریک ہوئے۔ صحت سے متعلقہ صوبائی محکموں کے نمائندوں نے تپِ دق اور ملیریا سے متعلق اپنی معلومات، تجربات، ان کو لاحق آزمائش پر گفتگو کرتے ہوئے سفارشات بھی پیش کیں۔ تقریب میں موجود تمام صوبوں کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے نمائندوں نے بھی اپنے اپنے صوبوں میں سیلاب کے بعد کی صورتحال پر معلومات فراہم کیں۔پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں ملیریا کی بیماری کی تشویش ناک پھیلا کی اطلاعات ہیں۔ ہماری 30فیصد سے زیادہ آبادی ملیریا کے ممکنہ پھیلا کے زیادہ خطرے کے درجوں والے علاقوں میں رہائش پذیر ہے ۔ صوبہ پنجاب میں بھی ملیریا درمیانے خطرے سے کم خطرے کے درجے میں ہے۔بدقسمتی سے پاکستان تپِ دق کے زیادہ کیسز کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ میں سے 263افراد اس مہلک بیماری سے متاثر ہیں۔ سالانہ پانچ لاکھ اسی ہزار سے زہادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ۔ سالانہ، اس بیماری سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد چوالیس ہزار سے زیادہ ہے۔ہماری آبادی کو بڑا خطرہ مختلف ادویہ کے اثرات سے مزاحمت کرنے والی تپِ دق کی اقسام سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس قسم کی تپِ دق سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 27,000ہے۔اس سال کے شروع میں پاکستان کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔اکتوبر کی 11 تاریخ تک ملک کے 94 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ متاثرہ اضلاع کی بڑی تعداد بلوچستان، سندھ اور خیبر پختو نخواہ کے صوبوں میں سے ہے۔ سیلاب کے بعد ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2022 کے دوران پاکستان میں ملیریا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد میں سے 78 فیصد سندھ اور بلوچستان کے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح سیلاب کے دوران تپِ دق کی تشخیص اور علاج کا عمل بھی متاثر ہوا۔پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسسمنٹ (PDNA) کے مطابق بحالی کے لیے کاروائیاں انجام دیتے ہوئے پاکستان بھر کے نقطہ نظر کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس اسسمنٹ کے تین بنیادی اہداف ہیں: مرکزی بنیادوں پر بہتر تعمیرِ نو، عوام کی سماجی معاشی بحالی اور متوقع قدرتی خطرات و موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے کا مکمل اور جامع نظام-پی ڈی ایم اے پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل فیصل فرید نے شہروں اور انفرا اسٹرکچر کی آفات کو برداشت کرنے کی صلاحیت کے مطابق تعمیر کے لیے ترقیاتی شراکتی اداروں اور حکومت کی جانب سے مضبوط تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔تپِ دق اور ملیریا پر قابو پانے کی صوبائی کوششیں ایس ڈی جی 3 (Good health and well-being)کے معیار کے مطابق ہیں۔ صوبائی حکومتیں 2030 تک سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز کے مطابق اہداف کے حصول کے لیے ملک سے ان مہلک بیماریوں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ بحالی کے لیے موجودہ حالات میں ملیریا اور تپِ دق پر قابو پانے کے لیے مختلف صورتحال کے مطابق اور پائیدار منصوبوں میں تمام متعلقہ اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔پنجاب ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد الیاس نے اپنے اختتامی کلمات میں تمام صوبوں سے شرکت کرنے والے عہدیداران کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں کو لاحق آزمائشوں، ان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو بہتر سمجھنے جبکہ تپِ دق اور ملیریا پر قابو پانے کے لیے آئندہ اقدامات پر اظہارِ خیال کے لیے منعقدہ ورکشاپ کو کافی فائدہ مند قرار دیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر الیاس نے اس ورکشاپ کے انعقاد میں حکومت کے ساتھ تعاون پر یو این اوپس کا شکریہ ادا کرنے ہوئے صوبائی سطح پر اس طرح کی مزید تقاریب کی ضرورت پر زور دیا۔